
پی ٹی آئی اور شہباز حکومت کے پہلے ایک سال کی کارکردگی کا جائزہ – تحریر: تاج حسین
25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے نمایاں کامیابی حاصل ہونیکے بعد اور 18 اگست 2018 کو عمران خان نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا۔ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی عوام کے سامنے بڑے اصلاحاتی منصوبے پیش کیے، جن میں ایک کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھروں کی تعمیر، پولیس اصلاحات، جنوبی پنجاب صوبے کا قیام، اور عالمی سطح پر پاکستانی پاسپورٹ کی وقار میں اضافہ شامل تھے۔ علاوہ ازیں، کرپشن کے خاتمے، ادارہ جاتی اصلاحات، ٹیکس نظام میں بہتری، اور اقربا پروری سے اجتناب جیسے وعدے بھی کیے گئے۔
پی ٹی آئی حکومت کو معاشی طور پر سنگین چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ اقتدار میں آتے ہی حکومت نے ملک کو درپیش مالی بحران کے حل کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر خود عمران خان اور پی ٹی آئی پہلے کڑی تنقید کر چکے تھے۔ تاہم، قرضے اتارنے کے لیے حکومت کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور چین سمیت دیگر دوست ممالک سے مالی امداد حاصل کرنا پڑی۔
معاشی استحکام کی کوششوں کے باوجود، حکومتی پالیسیوں کے اثرات عوام پر گہرے رہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق اگست 2018 میں مہنگائی کی شرح 5.8 فیصد تھی اور ایک سال بعد یعنی اگست 2019 میں مہنگائی کی شرح میں کر10.4 فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔ جبکہ اگست 2018 سے اگست 2019 تک ڈالر 123 روپے سے بڑھ کر 158 روپے تک جا پہنچا، جس سے مہنگائی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ پیٹرول کی قیمت 95.24 روپے سے بڑھ کر 117.83 روپے فی لیٹر، جبکہ دیگر ضروری اشیاء جیسے کہ چینی، گھی، دالیں، کھاد، اور گوشت کی قیمتوں میں بھی غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔
حکومت کی جانب سے ٹیکس اصلاحات کے تحت پہلے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں پر زور دیا گیا، مگر تاجروں اور سرمایہ دار طبقے نے ان پالیسیوں پر سخت احتجاج کیا، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتالیں دیکھنے میں آئیں۔ اسد عمر کی بطور وزیر خزانہ برطرفی کے بعد عبدالحفیظ شیخ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی، لیکن معیشت میں استحکام کے واضح اثرات نظر نہ آئے۔
پی ٹی آئی حکومت نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت سامنے نہ آ سکی۔ اگرچہ حکومت نے جنوبی پنجاب کے لیے ایک علیحدہ سیکرٹریٹ بنانے کا اعلان کیا، مگر یہ بھی کاغذی کاروائی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اس کے برعکس، جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے رہنما مختلف وزارتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے، جن میں خسرو بختیار اور عثمان بزدار جیسے نام شامل ہیں.
پنجاب اور خیبرپختونخوا میں پولیس اصلاحات پی ٹی آئی کے منشور کا ایک اہم جز تھا، لیکن ابتدائی کوششوں کے باوجود یہ منصوبہ کسی ٹھوس نتیجے تک نہ پہنچ سکا۔ پولیس ریفارمز کمیشن کے سربراہ ناصر درانی کی استعفیٰ دینے کے بعد یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا، اور حکومت کی جانب سے اس پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہو سکی۔
حکومت نے کرپشن کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور احتساب کے نعرے کو اپنی پالیسی کا مرکزی ستون بنایا۔ نیب کے ذریعے مختلف سیاسی رہنماؤں کے خلاف کیسز بنائے گئے، مگر اپوزیشن جماعتوں نے ان اقدامات کو سیاسی انتقام قرار دیتی تھی۔ اس دوران کئی بڑے سکینڈلز سامنے آئے، جن میں چینی اور آٹے کا بحران شامل تھا، مگر حکومت ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب نہ ہو سکی
پی ٹی آئی حکومت نے 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود یہ منصوبہ ابتدائی مراحل سے آگے نہ بڑھ سکا۔ حکومت نے کچھ پراجیکٹس کا آغاز تو کیا لیکن مالی مشکلات اور بیوروکریسی کی رکاوٹوں کے باعث یہ منصوبہ سست روی کا شکار رہا۔
**روزگار کی فراہمی اور مہنگائی میں کمی کے دعوے؛
حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن ایک سال میں اس حوالے سے کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہو سکی۔ برعکس، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معیشت میں سست روی کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے مختلف اسکیموں کے ذریعے غریب طبقے کو مویشی فراہم کرنے اور چھوٹے کاروباروں کی معاونت کرنے کی کوشش کی، مگر یہ اقدامات بھی وسیع پیمانے پر عوامی ریلیف دینے میں ناکام رہے۔
وزیراعظم عمران خان اور ان کی ٹیم مسلسل یہ مؤقف اختیار کیے رہی کہ حکومت مشکل فیصلے کر رہی ہے، اور ابتدائی مشکلات کے بعد صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کے مطابق عمران خان روزانہ 18 گھنٹے کام کرتے رہے، اور حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے بہتری کی امید دلاتی رہی۔ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے سال میں کئی چیلنجز سامنے آئے، اور اگرچہ کچھ اصلاحات کی کوششیں کی گئیں، مگر بیشتر وعدے یا تو پورے نہ ہو سکے یا ان پر پیش رفت نہ ہونے کے برابر رہی۔ معاشی استحکام، مہنگائی، بے روزگاری، پولیس ریفارمز، اور جنوبی پنجاب صوبے جیسے اہم مسائل پر حکومت کی کارکردگی توقعات کے مطابق نہ رہی۔
لیگ کی موجودہ حکومت کا قیام اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے سے مترادف کہا جاتا تھا۔8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے نتیجے میں کسی پارٹی کو واضح اکثریت قومی اسمبلی میں نہ مل سکی۔ PDM کی 16 ماہ مخلوطحکومتِ کے دروان بھی سیاسی بحرانوں اور غیر یقینی کی صورتحال برقرار رہی۔ ایسے میں الیکشن پر مبینہ دھاندلی کے الزامات نے ملکی صورتحال پر گہراے اثرات کیے۔ کمزور اتحادی حکومت اور مضبو اپوزیشن کے باوجود
شہباز شریف کی حکومت نے ایک سال کے دوران معیشت کی بہتری کے لیے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ حکومت کے سخت فیصلوں اور مؤثر پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ روپے کی قدر مستحکم رہی، افراط زر 38 فیصد سے کم ہو کر سنگل ڈیجٹ 2.4 فیصد پر آگیا، شرح سود 22 فیصد سے کم ہو کر 12 فیصد پر آگئی، اور زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے۔ اسٹاک مارکیٹ 100 انڈیکس ایک لاکھ 18 ہزار پوائنٹس سے عبور کرگیا، ترسیلات زر گزشتہ سال کے 30 ارب ڈالر کے مقابلے میں 35 ارب ڈالر تک جا پہنچیں، 1.2 ارب ڈالر کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حاصل کیا گیا، اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں سرمایہ کاری 9.1 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اسمگلنگ کو روکا گیا، آئی پی پیز سے معاہدے منسوخ کیے گئے، غیر ملکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی معیشت پر اطمینان کا اظہار کیا، آئی ایم ایف کا اعتماد بحال ہوا، اور ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا۔
شہباز حکومت کی بہتر کارکردگی کا واضح ثبوت ہے۔بجلی کے نرخوں میں کمی کیلئے پچھلے پانچ چھ ماہ میںکی گئی کوششیں رنگ لارہی ہیں۔بجلی کے ترسیلی نقصانات میں کمی بھی اصلاحات کے مثبت نتائج کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بجلی شعبے کی اصلاحات سے گھریلو صارفین اور صنعتوں کیلئے ٹیرف میں مزید کمی آئے گی۔ معاشی درجہ بندی کے ادارے فچ نے بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستانی معیشت میں بہتری جاری ہے۔ رعی برآمدات، سخت مانیٹری پالیسی سے کرنٹ اکاؤنٹ کھاتہ 1.2ارب ڈالرسرپلس رہا،۔پاکستان کی معاشی سرگرمیاں مستحکم اور شرح سود میں کمی سے بہتر ہورہی ہیں۔ ان کامیابیوں کے باوجود، حکومت نے “اڑان پاکستان” کے نام سے پانچ سالہ قومی اقتصادی منصوبہ بھی متعارف کرایا ہے، جس کا مقصد برآمدات، آئی ٹی، زراعت، اور کان کنی کے شعبوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پائیدار اقتصادی ترقی کا حصول ہے۔ ان اقدامات کے نتیجے میں، پاکستان کی معیشت مستحکم ہوئی ہے، اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ حکومت، فوج، اور عوام کی مشترکہ کاوشوں سے ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پایا گیا ہے، اور معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہیں۔ شہباز حکومت کی انتھک کوششوں سے ایک ہی سال میں ملک نے اقتصادی ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ مخالفین بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ شہباز حکومت پچھلے سال کے دوران ملک میں معاشی لحاظ سے بڑی کامیابی حاصل کی ہے، اور وہ اؤن گراؤنڈ نظر بھی آرہے ہیں، مگر منہگائی کی شرح اتنی بڑھ گئی تھی کہ اب بھی معاشی اقدامات کے ثمرات براہ راست عوام تک نہیں پہنچ رہے جس پر حکومت کو مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نیگزشته دونوں میں آئی ایم ایف سربراہ سے ملاقات کے دوران پاکستان میں میکرو اکنامک سٹبيلٹی حاصل کرنیکی تصدیق کر چکے ہیں،ایک طرف ائی ایم ای حکام نے بھی پاکستان کی معاشی ترقی کا اعتراف کر لیا۔ دوسری جانب ہی ائی ایم ایف وفد پاکستان کے دورے پر غیر متوقع ملاقاتیں کر رہے۔ عدالتی محاز پر تبدیلیوں اور تبادلوں کے بھیج میں ایم ایف ایف کی چیف جسٹس سے ملاقات سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ ائی ایم ایف کی کڑی شرائط حکومت کیلئے ایک اونچا پہاڑ سے کم نہیں مگر ایسے میں عدالتی نظام کی نگرانی يا جانچ پڑتال پاکستان کی عدالتی خود مختاری پر ایک سوالیہ نشان ہوگی۔ آئی ایم کو پاکستان کی عدالتی نظام سے دلچسپی کیوں ہے، اور یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر IMF کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی، کیا عدالتی معاملات کی جانچ پڑتال ImF کا مینڈیٹ ہے؟؟ ائی ایم ایف وفد کا چیف جسٹس کے ساتھ میٹنگز تک تو ٹھیک لگ رہا مگر پی ٹی آئی کی ایم ایف کو خط اور شیکوے شکایت کے کیا اثرات مرتب ہونگے۔بانی پی ٹی آئی کی ترسیلات زر کی اپی ناکام ہوگئی اب دیکھنا ہوگا کیا ایسے اقدامات سے حکومت پر دباؤ بڑھے ہے۔۔
شہباز حکومت ایک سال کی مختصر مدت میں سیاسی انتشار، دہشت گردی اور ریاستی اداروں کے اندر جاری کشمکش کے چیلنجوں کے باوجود موجودہ حکومت کی یہ کارکردگی یقینا بہت خوش آئند اور امید افزا ہے۔
ادارے کا مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں!
Post Views: 167