
توکھو روڈ تحریک کے اسیران کی خدمت میں ایک نصیحت – تحریر: قاری فیض اللہ چترالی
کہا جاتا ہے کہ جیل اور ریل سیاستدان کی زندگی کے وہ اثاثے ہیں جو اس کی سیاست کو وقار، عظمت اور اعتبار بخشتے ہیں۔ جیل اور ریل درحقیقت قید و بند کا استعارہ ہیں، جن کے بغیر کسی بھی سیاستدان کی شخصیت میں وہ ٹھہراؤ، نکھار اور استقامت پیدا نہیں ہو سکتی جو ایک عظیم راہنما کا خاصہ ہوتی ہے۔ ہم ماضی کے جن سیاسی اکابرین کو اپنا آئیڈیل مانتے ہیں، چاہے وہ قومی سطح کے ہوں یا عالمی، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کی زندگی آسائشوں سے عبارت ہو۔ ان سب نے قربانیوں، آزمائشوں اور قید و بند کے خارزار سے گزر کر ہی وہ مقام حاصل کیا ہے، جہاں تاریخ انہیں عزت سے یاد کرتی ہے۔
سرخرو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد
رنگ لاتی ہے حنا پتھر سے گِھس جانے کے بعد
جیل کو سیاستدان کے لیے ایسی بھٹی کہا جاتا ہے جس میں سچائی، قربانی اور حوصلے کا سونا کندن بن کر نکلتا ہے۔ جیل ایک سیاستدان کے کردار کی کسوٹی ہے، جو اس کی سیاست کو خالص بناتی ہے۔ جو ثابت کرتی ہے کہ حق و صداقت کی راہ کا رہرو ہے۔
یہ باتیں میرے دل میں اس وقت پیدا ہوئیں جب میں نے تورکھو روڈ تحریک سے وابستہ ان نوجوانوں اور بزرگوں کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھیں جنہیں پابند سلاسل کر کے ہتھکڑیاں پہنائی گئی تھیں۔ ایک ویڈیو اس وقت کی ہے جب انہیں پیشی کیلئے لایا جاتا ہے۔ اس موقع پر ایک جم غفیر ان کی حوصلہ افزائی اور استقبال کیلئے موجود ہوتا ہے، جبکہ ان قیدیوں کے لبوں پر رقص کرتی مسکراہٹ، ان کے چہروں پر وقار اور آنکھوں میں چمکتے استقامت کے جگنو یہ بتا رہے تھے کہ وہ امتحانِ عشق کے پہلے مرحلے میں کامیاب و سرخرو ہو چکے ہیں۔ ان کے چہروں پر ملال کے اثرات نظر آ رہے تھے، نہ ان کی پیشانی پشیمانی کے گرد سے آلودہ تھی، کیونکہ وہ کسی اخلاقی جرم کے مرتکب نہیں بلکہ ضمیر، غیرت اور حق کے قیدی ہیں۔ ایسی قید دراصل اعزاز ہوتی ہے، جو صرف مردانِ حُر کے حصے میں آتی ہے۔
لیکن اب ان کے سامنے ایک اور مرحلہ ہے، مشکل ترین اور فیصلہ کن مرحلہ۔ اس مرحلے کی کامیابی یا ناکامی ان کی پوری تحریک، جدوجہد اور کردار کا تعین کرے گی۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں آزمائشوں کی شدت اور موقع پرستی کا دباؤ بڑا سخت ہوتا ہے۔ قوم چاہتی ہے کہ وہ اس مرحلے میں بھی سرخرو نکلیں۔ بطور ایک ہمدرد، خیرخواہ اور تجربہ کار شخص، میں ان سے صرف زبانی کلامی و قلبی ہمدردی نہیں رکھتا بلکہ اپنی زندگی کی عملی مثال بھی بطور نصیحت پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ وہ رہنمائی حاصل کرکے فیصلہ درست انداز سے کر سکیں۔
یہ 1983 کی بات ہے۔ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کا سیاہ دور ہے۔ تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) زوروں پر ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جو بھی سیاسی کارکن جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ لیکر باہر آتا ہے، اسے پکڑ کر شدید تعزیر، دار و گیر اور کوڑوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سندھ سے لیکر خیبر تک سینکڑوں سیاسی رہنماؤں، صحافیوں، وکلا اور انسانی حقوق کے رضاکاروں کو اس تعذیب سے گزارا گیا۔ اسی دوران میں نے موڑکھو کی عیدگاہ میں آمریت کو للکارا اور جلد انتخابات کرکے عوام کا حق اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے کا جائز، قانونی، آئینی اور شرعی مطالبہ کیا۔ جیسا کہ عرض کیا اس دور میں ایسی بات کرنا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا، چنانچہ مجھے بھی اس تقریر کی پاداش میں دیگر سیاسی کارکنوں کی طرح گرفتار کر لیا گیا اور دنین کی جیل میں قید کر دیا گیا۔ وہاں اذیتیں معمول تھیں، قید تنہائی، ملاقات پر پابندی، جسمانی تشدد اور ذلت آمیز سلوک، اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت دنین جیل سب جیل تھی۔ ابھی یہ سینٹرل جیل نہیں بنی تھی۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ دنین جیل کو سب جیل سے سینٹرل جیل میں اپگریڈ کرنے کا عمل بھی میری اس قید کے ایک واقعے سے منسوب ہے۔
ہوا یہ کہ ایک دن آئی جی جیل خانہ جات نے جیل کا دورہ کیا۔ مختلف قیدیوں سے ملاقات کے بعد میرے پاس آئے اور پوچھا کوئی خدمت ہے تو بتائیے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ ایک سب جیل ہے اور یہاں قیدیوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں جگہ ناکافی ہے، اس کے علاوہ بھی یہاں جیل مینوئل کے مطابق جو قانونی سہولتیں ہونی چاہئیں، وہ بھی نہیں ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ اسے اگر سینٹرل جیل کا اسٹیٹس دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ میری یہی ایک درخواست ہے، چنانچہ اس درخواست پر دنین جیل کو سب جیل سے سینٹرل جیل میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ دوسری بات یہ کہ اس دور میں قیدیوں کو پیشی کیلئے بونی لے جایا جاتا تھا۔ اس وقت سڑکوں کی جو حالت ہوتی تھی، آج اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ دھول اڑاتی کچی سڑکیں، جن پر اچھلتی کودتی دائیں بائیں لڑھکتی جیپیں چلا کرتیں۔ مجھے بھی ہتھکڑی پہنا کر جیپ میں پھینک دیا گیا۔ ایک عام سا غیر معروف مولوی، جان نہ پہچان، کسی نے سیٹ آفر کی اور نہ ہی ڈھنگ سے بٹھا دیا۔ جیپ اپنی رفتار سے چلتی تو کبھی میرا جسم ایک طرف کی باڈی سے جا ٹکراتا اور کبھی دوسری طرف کی باڈی سے اور سر کسی تیسری چیز سے ٹکراتا رہتا۔ ان حالات میں کئی تکلیف پیشیاں بھگتیں۔
جیل کی اسارت کے ان دنوں کی میرے لیے ایک بڑی فخر کی بات یہ تھی کہ ضیاء آمریت کے اس سخت دور میں اجازت نامہ لینے کی اذیت ناک آزمائش سے گزر جو حضرات جیل میں مجھ سے ملنے کیلئے آیا کرتے تھے، ان میں میرے چند بزرگ بھی شامل تھے۔ موقع کی مناسبت سے ان کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ ان بزرگوں میں چمرکن کے مولانا شریف علیہ الرحم، حضرت والا گہتو استاد، مولانا عبدالکریم کمپنیو مولائ، بازار کے صدر حاجی محمد علی صاحب، معروف تاجر حاجی رمضان صاحب اور عشریت سے تعلق رکھنے والے میرے دوست، ساتھی اور برخوردار عزیز عنایت شمسی کے والد قاری شمس الرحمن صاحب شامل تھے، ان کی آمد نے ہمیشہ مجھے ہمت و حوصلہ دیا اور مجھے کسی لمحے بھی کمزور نہ ہونے دیا۔
اب اپنی قید کے اس خاص واقعے کا ذکر کرنا چاہوں گا، جس میں ہمارے آج کے ان اسیرانِ حقوقِ عوام کیلئے بڑی نصیحت موجود ہے۔ میری عمر محض بیس یا اکیس سال تھی۔ آج تورکھو بوزوند روڈ تحریک کے ان اسیران میں جہاں نوجوان خون بھی موجود ہے، ایک ستر سالہ نورانی صورت بزرگ بھی ان قیدیوں میں شامل ہیں، جو نوجوان قیدیوں کیلئے امید، ہمت، حوصلے اور برکت کا بھی باعث ہے۔ بات دوران قید ملاقاتوں کی ہو رہی تھی۔ جہاں میرے دیگر بزرگ میری حوصلہ افزائی کیلئے تشریف لاتے تھے، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ بھی تشریف لایا کرتے۔ مجھے وہ قت اچھی طرح یاد ہے، جب پہلی مرتبہ ابا جان کسی نہ کسی طرح جیلر تک رسائی حاصل کر کے مجھ سے ملاقات کے لیے تشریف لائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ہر بیٹے کو اپنے باپ سے نرمی کی امید ہوتی ہے، یہ خیال کیا جاتا ہے کہ باپ قیدی بیٹے کو کمپرومائز کرنے کی تلقین کرے گا تاکہ اس کی قید و بند کی صعوبت جلد ختم ہوجائے، مگر میرے والد محترم نے فرمایا:
“بیٹا! اب جب گرفتار ہو ہی چکے ہو، تو اپنے موقف پر پوری طرح ثابت قدم رہو اور کبھی ضمانت کی درخواست نہ دینا۔ ورنہ تمہاری پوری جدوجہد رائیگاں چلی جائے گی۔”
ابا جان مرحوم کے ان الفاظ نے میرے دل میں وہ استقامت بھردی جس سے میں نے جیل میں سرخرو ہو کر وقت گزارا اور الحمدللہ کامیابی سے باہر آیا۔ اپنے جیل کے اسی معمولی تجربے کی روشنی میں میں تورکھو بوزوند روڈ تحریک کے ان اسیر نوجوانوں اور بزرگوں کی خدمت میں بھی اپنے والد حضرت مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ کی نصیحت عرض کروں گا کہ اس موقع پر جیل کو فخر سمجھیں اور ہرگز ضمانت کی درخواست نہ دیں، جس دن آپ نے ضمانت کی درخواست دے دی، اس دن آپ کی تحریک کا اخلاقی جواز کمزور پڑ جائے گا اور آپ کا اعتبار سوالیہ نشان بن جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ اس آزمائش پر ڈٹے رہے، تو وقت آپ کا حامی ہوگا، حکومت پر دباؤ بڑھے گا، قوم کی تائید حاصل ہوگی اور جب ایک دن جیل کے دروازے کھلیں گے، تو آپ کو عزت، وقار اور فتح کے گلدستے کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے گا۔
آخر میں اپنے ان دو بزرگوں کا ذکر خیر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں جو قید و بند کے اس عرصے میں میرے ساتھ گرفتارِ بلا ہو کر جیل پہنچے تھے۔ ایک اپنے دور کے عظیم حق پرست و حق گو عالم دین حضرت مولانا قاضی محمد شاہ صاحب زائنی موڑکھو قاضی میزان الشرعیہ تحصیل موڑکھو اور دوسرے صوفی فضل کریم لال گنبد سہت موڑ کھو جو ایک جری نڈر اور فعال سیاسی ورکر تھے۔ یہ حضرات بھی میرے پائے استقامت کیلئے تقویت کا باعث بنے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین۔