
جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت اور سوتیلی ماں کا سلوک ۔
ّ(تحریر: رحمت عزیز خان (چترال ٹائمز
چترال جنوبی ایشیا کا سر کہلاتا ہے چین اور روس والے چترال کو جنوبی ایشیا کا دروازہ کہتے ہیں جبکہ چترال والے چترال کے اخری سرے درہ بروغل کو چین اور روس کا دروازہ کہتے ہیں۔ جو واخان پٹی میں کھلتا ہے۔ اسی مقام پر چین پاکستان افغانستان اور تاجکستان ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں
چترال جنوبی ایشیا کے انتہائی شمال میں ہندو راج اور ہندو کش پہاڑی سلسلوں کے درمیاں واقع ایک خوبصورت اورچار سو پچھتر کلومیٹر لمبی وادی ہے جو ارندو سے بروغل تک جنوبً مغرب سے شمال مشرق کیطرف پھیلا ہوا ہے۔اس کے شمال میں چین، واخان اور تاجکستان واقع ہیں مغرب کی طرف افعانستان کے بدخشان کے علاقے ہیں جنوب کی طرف وادی کنڑ اور دیر جبکہ مشرق کی طرف سوات اورگلگت بلتستان واقع ہیں۔ایک نظر دنیا کے نقشے پر ڈالنے سے جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ ہندو کش پہاڑی سلسلہ سے مشہور درے شاہ سلیم، شاہ جنالی، بروغل نورستان ،بشگال اور کئ دوسرے چھوٹے درے افغانستان میں کھلتے ہیں۔دوسری طرف ہندو راج پہاڑی سلسلہ سے درہ لاواری ٹاپ( اب لاواری ٹنیل) دیر کو جبکہ شندور اورچمر کھن پاس گلگت کو چترال کے ساتھ ملاتے ہیں۔ کئی چھوٹے درے سوات کی طرف نکلتے ہیں۔
چترال اپنے محل وقوع کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا ایک اہم علاقہ ہے۔یہ وسطی ایشیا جنوبی ایشیا ۱اور چین کے سنگھم میں پایا جاتا ہے۔چترال کی حیثیت جنوبی ایشیا میں ایسی ہے جیسا کہ انسانی جسم میں سر کا تعلق جسم کے دوسرے اعضاء سے ہے۔درہ بروغل جنوبی ایشیا کا وہ دروازہ ہے جو دو سپر پاور چین روس اور وسطی ایشیائی ممالک کے قریب تر ہو جاتا ہے۔درہ بروغل ایک طرف چین اور دوسری طرف افعانستان کی ایک باریک پٹی واخان میں کھلتی ہے جس کی چوڑائی تقریباً پندرہ کلومیٹر ہے پاکستان کو تاجکستان سے جدا کرتی ہے۔بروغل کا علاقہ چین اور روس میں جنوبی ایشیا کا دروازہ جبکہ بر صغیر میں بروغل روس اور چینا کا دروازہ کہلاتا تھا۔اگر واخان پٹی کو جنوبی ایشیا،چین، وسطی ایشیا کے ممالک اور روس کا تجارتی مرکز بنا دیا جائے تو واخان پٹی عالمی منڈی بن جائے گی۔

چترال برصغیر کی تقسیم سے پہلے شاہی ریاست تھی جو افعانستان کے چقانسرائے سے گلگت بلتستان اور بروغل تک پھیلا ہوا تھا۔یہ علاقہ اپنے مخصوص روایات، ثقافت قوانین اور رسم و رواج میں انفرادیت کے با وجود بیغیر چون وچرا کے سب ریاستوں سے پہلے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ مہترِ چترال ہز ہائنس سر ناصر الملک نے اپنے پیشرو کے لئے یہ لکھ کر چھوڑا کہ عنقریب پاکستان بننے والا ہے۔اگر میرے دور میں پاکستان بنا تو میں بے غیر ہچکچاہٹ کے اس کے ساتھ الحاق کرونگا اگر میرے پیشرو کے زمانے میں بنا تو وہ بے غیر چون و چرا پاکستان کے ساتھ الحاق کرے۔مہتر کے منہ سے نکلا ہوا ہر جملہ رعایا اور پیشرو کے لئے قانون کا درجہ رکھتا تھا سر ناصر الملک پاکستان بنتے وقت خود تو بقیدِ حیات نہیں رہا آپ کا یہ فرمان چترال کو پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا۔۔آپ پاکستان کے بانیوں میں شامل تھے۔آپ کئی بار قائداعظم سے بھی ملاقات کر چکے تھے۔ پاکستان کے جھنڈے کا چاند تارا بھی آپ کی عنایت ہے۔ چاند تارا کا نشان بہت پہلے ہی سے مہترِ چترال کے محل کے صدر دروازے پر نصب تھا۔ بعد میں یہ چاند تارا پاکستان کے پرچم کی زینت بنی۔

انگریز انیسویں صدی کے آخر میں چترال کے شاہی خاندان سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔اس وقت چترال میں مہتر آمان الملک حکمران تھا۔اس زمانے میں زارِ روس جنوبی ایشیا پر حملہ کرنے کا سوچ رہا تھا تو انگریزوں نے زارِ روس کےجنوبی ایشیا پر ممکنہ حملہ روکنے کے لئے شاہی ریاست کو مضبوط کرنا چاہتے تھے۔اس لئے برطانیہ چترال کی شاہی ریاست کو جنگی ساز و سامان دینے کے ساتھ ساتھ چترال کے لئے روڈ، پل اور چھاونیاں بنائے فوراً ٹیلی فون اور ٹیلی گراف چترال پہنچا دیا۔تاکہ چترال سے برصغیر پر روسی حملوں کو روک کر جنوبی ایشیا کا دفاع کیا جاسکے۔
برصغیر کا وائسرائے لارڈ کرزن بروغل درے سے چترال کے دورے پر آئے تو جنوبی ایشیا میں چترال کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے برطانیہ کی پارلمینٹ کو یہ پیعام بھیجا کہ اگر چترال ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا تو پورا برصغیر بھی چلا جائے گا۔اس لئے بیرونی حملوں سے جنوبی ایشیا کو بچانے کے لئے شاہی ریاست چترال کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔
دوسری طرف چترال برف پوش اونچے پہاڑوں، گلیشر،جھیل، گرم چشموں،،دریا، ندی نالوں ابشاروں، خوبصورت وادیوں، لہلہاتے کھیتوں، جھومتے ہوئے میواہ دار باغات سبزہ زاروں ،پھولوں جاڑی بوٹیوں جنگلی حیات شکار گاہ کھیل کے میدان ٹورسٹ سائٹ، مار خور، جنگلی حیات اور قیمتی معدنیات پر مشتمل ایک دلکش وادی ہے جہاں کے لوگ ملنسار، مہمان نواز پر خلوص امن پسند، بہادر، خوش مزاج اور خوبصورت ہیں ان کی اپنی تاریخ، ثقافت، روایات اور رسم و رواج دوسرے عالمِ اقوام سے منفرد ہیں۔

چترال میں دو الگ تہذیب کلاش اور کھوو اباد ہیں کلاش اس علاقے کے پرانے باشندے ہیں اور کافی عرصے تک چترال پر رئیس سے پہلے حکمران رہ چکے ہیں جو اپنی مخصوص روایات، ثقافت رسم و رواج تہواروں، مذہبی رسومات اور انداز زندگی کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہیں جو چترال کی وادی بومبوریت بیریر اور رومبور میں اباد ہیں۔پوری دنیا سے ٹورسٹ اس پرانی تہذیب کو دیکھنے کے لئے چترال اتے ہیں۔ کلاش کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے اگر اس تہذیب کو تحفظ دینے کی کوشش نہ کی گئی تو یہ تیزی سے معدومیت کی طرف جائے گی۔

کھوو تہذیب اپنی نوعیت کی دنیا میں بہترین تہذیب ہے۔جس کے تہذیب و تمدن، رسم و رواج، تہوار، لباس، بود و باش اور طرز زندگی کھوو تہذیب کو دنیا کی دوسری تہذیبوں سے ممتاز کرتی ہے۔کھوو قبیلےاپنی بہادری مہمان نوازی زندہ دلی یارباشی، شرافت اور امن پسندی میں پورے پاکستان میں مشہور ہیں۔چترال کے باشندے شکار اور کھیلوں کے شوقین ہیں۔مارخور چترال کا قومی جانور اور پولو قومی کھیل ہے۔
زمانہ قدیم میں چترال ایک مشہور تجارتی راستہ رہ چکا ہے۔چین اور وسطی ایشیا سے تجارتی قافلے درہ بروغل سے چترال میں داخل ہوتے تھے اور پھر کنڑ وادی سے ہوتے ہوئے پشاور پہنچ جاتے تھے۔پشاور اس زمانے میں ایک تجارتی منڈی تھی چین جنوبی اور وسطی ایشیا سے تجارتی سامان یہاں اتے تھےاور یہاں سے دوسرے ملکوں کو جاتے تھے۔اس تجارتی راستے پر جگہ جگہ سرائے اور ہوٹل موجود تھے۔جہاں تجارتی قافلے ٹھرتے تھے۔یہ سلسلہ کٹور دور حکومت تک جاری رہا۔ پھر انگریزوں نے چترال کی شاہی ریاست کے ساتھ دوستی کرکے روسی ممکنہ حملوں سے بچاو کے پیش نظر یہ راستہ بند کردیا گیا۔

اٹھارہ سو پچھاسی میں انگریزوں نے برصغیر کو زار روس کے ممکنہ حملوں سے بچانے کےلئے ہندوکش پہاڑی سلسلوں کے دروں کو دریافت کر لیئے۔ چترال اور افغانستان کے درمیان ڈیورین لائن باونڈری کا تعین کرکے دروں کو سیل کردیا گیا۔ خاص کر بروغل پاس کو بند کر دیا گیا جو وسطی ایشیا اور چینا سے براہ راست تجارت اور امد و رفت کا ذریعہ تھا۔ بروغل درہ کو اب تک بند رہنا اور اس درہ تک سڑک تعمیر نہ کرنا حکومت پاکستان کے نااہل حکمرانوں کی حماقت ہے۔ کہ کوئی بھی حکمران اس اہم عسکری تجارتی اور قدیم روایتی راستے اور ہر لحاظ سے اہم علاقے کو نظر انداز کرنا افسوس کا مقام ہے۔اور ساتھ ہی برصغیر کو روسی متواقع حملوں سے بچاؤ کے لئے شاہی خاندان کو مضبوط کر دیا۔ہتھیار چترال کو مہیا کیا گیا۔ بروغل تک راستے بنایا گیا تاکہ زارِ روس کے جنوبی ایشیا کی طرف پیش قدمی کو روکا جا سکے۔

جب پاکستان بنا تو شاہی ریاست پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔چونکہ چترال پاکستان کا دور افتادہ آخری سرا ہونے کی وجہ سے حکومتی عدم توجہ کا شکار رہا اور پسماندہ رہ گیا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ حکومت پاکستان چترال کے محلِ وقوع کی اہمیت کو پیش نظر رکھ کر اس کی تعمیر و ترقی پر توجہ دے اور چترال کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برابر لانے کے لئے ٹھوس اقدامات کرے۔جنوبی ایشیا کے سر کو ننگا نہ چھوڑے بلکہ اسکے سر پر تاج پہنائے اور نہ ہی اس دروازے سے عافل ہو۔ جو اب تک یہ اہم علاقہ کئی بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان بننے سے اب تک حکمرانوں نے اس علاقے کو نظر انداز کرکے اس کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کرتے آئے ہیں۔ اس لئے یہ علاقہ پاکستان کے دوسرے سب علاقوں سے پسماندہ رہ چکا ہے۔چترال میں روڈ، مکانات، گلیاں اور نہریں سب کچے ہیں۔ چترال سے ملے جلے علاقے سوات اور دیر میں سارے روڈز گلیاں مکانات وغیرہ سب پکے ہیں۔ اس سے یہ ثابت بات ہوتی ہے کہ چترال کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پسماندہ رکھا گیا ہے یا ہمارے حکمرانوں کو اپنے ملک کے بارے میں معلومات نہیں۔ یہاں اکثر جگہوں میں لوگ بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ روڈوں گلیوں سے کیچڑ اور گرد اچھلتے ہیں۔ بہت سے جگہوں کےلئے روڈ ہی نہیں ہیں۔ میڈیکل اور ایجوکیشن کے مسائل ہیں۔ یہی مسائل دوسرے پسماند علاقوں میں اتنے سنگین نہیں جتنے چترال میں ہیں۔ چترال کے عوام پرسکون اور امن پسند ہونے کی وجہ سے چترال کی پسماندگی کا رونا روتے ہیں۔ مگر حکمران ٹھس سے مس نہیں ہوتے ہیں اور اپنی قسمت کا رونا روتے ہوئے قیام پاکستان سے اب تک چپ ہیں۔ یہی شرافت چترال کی ترقی کے سامنے رکاوٹ بنی ہے۔
چترالی عوام تمام تر سہولتوں سے محرومی کے باوجود پاکستان کے وفادار مہذب شریف اور پرخلوص شہری ہیں۔ ان کی امن پسندی اور شرافت کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ پاکستان کے تمام شہریوں اور علاقوں کو یکسان حقوق ملنا انصاف کا تقاضا ہے۔ خاص کر پاکستان کے سرحدات پر واقع علاقوں کی ترقی سی ملک مستحکم ہوگا۔ چترال کو بھی وہی حقوق ملنا چاہئے جو پنجاب سندھ اور کے پی کے دوسرے علاقوں کو ملا ہے۔










