
دھڑکنوں کی زبان – “بیروکریٹ کا گھر ” – محمد جاوید حیات
شاہ سے شاہی دنیا کی تاریخ کا حصہ ہے خود غرض انسان نام کی اس مخلوق نے جب کسی نہ کسی طریقے سے طاقت حاصل کیا تو اپنے ہی جیسے انسانوں کو زیر کر کے ان پر حکومت کی۔زیردست اور زبردست کا تفرقہ وہاں سے جنم لیا ۔انگریزی میں کہتے ہیں کہ “اقتدار میں نشہ ہے ” یہی نشہ سب خرابیوں کی جڑ ہے اسی تفرقے اور اونچ نیچ کو مٹانے کے لیے اسلام آیا ۔۔پہلا نعرہ تھا انسان برابر ہیں ۔۔دوسرا نعرہ تھا آدمی آزاد پیدا ہوا ہے ۔۔تیسرا نعرہ انصاف کا تھا جب یہ تینوں عملی طور پر معاشرے میں نافذ ہوۓ تب دنیا سے ظلم مٹتا دیکھائی دیا ۔۔قیصر و کسری کی سطوت مٹ گئی ۔۔حکمران وقت پیوند لگے کپڑے پہننے لگے ۔۔اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام رائج ہوااسی امت کی تاریخ کے صرف تیس سال بعد پھر شاہی سطوت واپس آگئی وہی سادگی افسانہ بن گئی۔۔آفیسر شاہی نے جنم لیا ۔دربار سجنے لگے پروٹوکول کا تصور آگیا ۔
انگریزوں نے جب برعظیم پر قبضہ کرلیا تو مسلمانوں کو جسمانی اور ذہنی دونوں لحاظ سے غلام بنالیا وہ بدترین غلامی آج بھی قائم ہے ان کی ٹیکنالوجی اور ترقی کے سامنے ہم نے مجبورا گھٹنے ٹیک دۓ ۔۔یہ ہماری مجبوری ہے انہوں نے کام کیا ہم نے عیاشیاں کیں ۔۔ مگر اس کے علاوہ بھی ان کی کلچر زبان و ثقافت کے اپنانے کو اپنے لیے فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔ان کی زبان انگریزی کو ترقی یافتہ دنیا میں ترقی پزیر قوموں کے لیے سیکھنا ناگزیر ہے لیکن اس مجبوری پر فخر کرنا ناگزیر نہیں ہے مگر کیا کریں ذہنی غلامی نے ہمیں مجبور کردیا ہے ۔آج ہم اپنی ثقافت اور زبان کو اس لیے برا بلا کہتے ہیں ۔کہ یہ ہماری ماں کی زبان کیوں ہے ۔ہم پیدائشی انگریز کیوں نہیں ۔برصغیر میں انگریزوں نے آفیسر شاہی کی بڑی مشقیں کیں ۔صاحب اور میم کا احترام حد سے زیادہ ہونے لگا یہی صاحب اور میم واپس یورپ جاتے تو ان کہ حیثیت ایک عام شہری کی بھی نہ ہوتی
ان کو کوئی ذمہ داری نہ سونپی جاتی کہتے کہ ان کی ذہنیت اور سوچ میں فرق آیا ہے وہ غلاموں میں زندگی گزار چکے ہیں ۔۔اداب غلامی نے ان کو متاثر کیا ہے اسی آفیسر شاہی پر آج تک عمل ہورہا ہے ۔۔آزادی کے بعد بھی آفیسر آفیسر ہے اور عوام کیڑے مکوڑے ۔۔۔معمولی آفیسر کی گاڑی ،اس کا گارڈ ،اس کا بنگلہ اس کے نخرے عوام میں عجیب کراہت پیدا کرتے ہیں یہاں تک کہ ان کے بچوں کے نخرے برداشت سے باہر ہوتے ہیں ۔ان کے لیے خوشأمد کے پل باندھے جاتے ہیں اور ان کے آگے انسانیت کی تذلیل ہو رہی ہوتی ہے جو ان کے لیے فخر کی بات ہے کیونکہ ان کی آفیسر شاہی قائم و دائم رہتی ہے ۔۔
آج ایک بیروکریٹ بلکہ دو بیروکریٹز کے گھر کا نقشہ لیے بیٹھا ہوں اس لیے کہ آفیسر شاہی کے گھر ہوتے ہوۓ عیاشیوں سے پاک ،روایات کا امین ،سادگی کی مثال اور طمانیت کا رین بسیرا ہے ۔
کچھ دن پہلےکچھ روز کے لیے بھائی کی تیمار داری کے سلسلے میں پشاور میں رہنا پڑا ۔۔بھائی کا خاندان جو ان کے سسرالی بھی ہیں بیروکریٹ سے بھرا پڑا ہے ہر قماش کے آفیسرز ملتے ہیں ۔۔ان میں سول سروس کے لوگ ،محافظین کا جھتا ،شوسل ورکر سب شامل ہیں ۔۔۔۔
خاندان میں جاوید احمد ایک اعلی تعلیم یافتہ نوجوان ہیں چترال میں محکمہ آپاشی اور آب نوشی کے محکمےمیں ذمہ دار عہدے پر ہیں مگر وہ یہ عہدہ جتاتا نہیں کسی کو پتا نہیں ہوتا کہ اس بانکے جوان کے پاس کوئی عہدہ بھی ہے ۔خاندان پہ جب کچھ سٹرس پڑتا ہے جاوید فرنٹ لائن پہ ہوتے ہیں ان کی انتظامی صلاحیت نکھر آتی ہے ۔ان کی اور ساری صلاحیتوں کے علاوہ کسی موضوع پر بات کرنے دلائل دینے اور دلائل سے اپنی بات منوانے کی صلاحیت دیدنی ہوتی ہے وہ جدید دنیا یعنی حال کو ماڈل اور ماضی کو بھولن کی ٹھیکری سمجھتے ہیں ان سے ایک بار آفیسر شاہی پہ بحث ہوئی ۔۔فرمایا کہ جدید دور کے تقاضے ہی ایسے ہیں ۔افیسر شاہی کا تعارف ہی پروٹوکول ہے اس پر اعتراض کی بات محض واماندگی ہے
بھائی کے بیمار پرسوں میں ان کے سسرالی خاندان کے دو أفیسرز نمایان تھے ۔ایک بشارت احمد تھے ان کے پاس عہدہ ڈائریکٹر لینڈ رکارڈز کے پی کے کا تھا جو بڑا عہدہ تھا کے پی کے سارے ڈی سیز اس لحاظ سے ان کے خوشہ چین تھے دوسری ان کی بیگم رخسانہ جبین تھیں جو ڈپٹی ڈائریکٹر ٹریننگ اکیڈیمی کے پی تھیں دونوں بڑے عہدوں کے مالک دونوں آفیسر شاہی ۔۔۔ایک بنگلے میں دو آفیسرز ۔۔ہمارے دل و دماع میں آفیسر شاہی کا جو خاکہ تھا اور جو کبھی تجربے میں بھی آیا تھا وہ کچھ خوابوں جیسا تھا ۔۔
\
یہ لو بنگلے کے صدر دروازے ( مین گیٹ) کی چٹاخ سے ہی دو بندے اندر سے حاضر ہوۓ صاحب کا پوچھنے پر کہا جی موجود ہیں اندر آنے کی اجازت ہو تو مہمان خانے میں بیٹھایا جاۓ گا۔عرصہ گزرے صاحب ایک شان شاہی سے نمودار ہوگا ایک ہاتھ میں موبائل اور ساتھ بٹواہ ہوگا اس بٹوے میں نقد ،شناختی کارڈ ،دو چار اے ٹی ایم کارڈز ،سروس کارڈ وغیرہ ہونگے ۔۔۔ایک ہاتھ سے ہاتھ ملاۓگا کچھ پوچھے تب بھی شان بے نیازی سے قہقہے لگاۓ گا ۔ان کے ہاں میں ہاں ملانا ہوگا ۔اس کے قہقہے کا ساتھ دینا ہو گا تمہیں ہزار ہنسی نہ آۓ تب بھی کبھی کبھی کرنی ہوگی ۔شام کا سماں ہو گا ۔۔۔پینا پلانا ہوگا۔۔جام ٹکرائیں گے چیس چیس ہوگا ۔۔زندگی کی حقیقت بھلائی جاۓ گی۔۔خاک کی کارستانیاں ،صحت کی جھول ،پریشر ،ٹنشن سب ذہنوں سے محوکی جائیں گی گویا کہ جام میں ڈال کر پی جائیں گی ۔۔بچے جیسے کسی اور دنیا کے لگیں گے ۔۔۔بے وجہ بے تکی پیار ان کو دیا جاۓ گا۔۔ان کی ہر ادا کو ویل کم کیا جاۓگا ۔۔قیمتی فرنیچر ہوں گے۔۔کھانے پینے کے برتن عجیب ہونگے ۔۔یہ کچھ اور طرح کے خواب جیسے خاکے ذہن میں ہوتے تھے ۔۔ایک شام بیروکریٹ کے ساتھ کھانے پہ گئے رات گیارہ بجے فارغ ہوۓ تو بشارت نے گھر جانے کا کہا ۔۔۔یہی خواب سجاۓ ہم ان کی گاڑی میں ان کے گھر پہنچے ۔۔
ان کے صدر دروازے پر ان کا اپنا چچا ذات بھائی حاضر ہوا ۔۔گیٹ سے اندر ان کی بیگم بیروکریٹ کی قیمتی کار کھڑی تھی ۔۔باہر برآمدے میں عام سے فرنیچر تھے ۔۔سامنے چوبی میز پڑی تھی ۔ہم جاکے بیٹھ گئے ۔۔دو چار قسم کے پھل لاۓ گئے ہم نے کھا لیا بیروکریٹ نے خود بستر ٹھیک کیا ۔۔ہم سو گئے ۔۔تکیے سے سر لگا تو مسلمانوں کا شاندار ماضی یادوں میں تھا ۔۔حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے مہمان کے ساتھ بیٹھے ہیں دیا میں تیل ختم ہوجاتا ہے خود آثھتے ہیں بجھتے دیا اٹھاتے ہیں توشہ خانہ جا کر تیل بھرتے ہیں واپس لا کر جلاتے ہیں پھر مہمان سےمخاطب ہو کر کہتے ہیں میں دیا بجھنے سے پہلے بھی عمر تھا اب بھی وہی عمر ہوں ۔۔یہ خلیفہ تھا بہت بڑی سلطنت کا مالک ۔۔۔اور بہت سے تسلسل تھے ۔۔سوچا کہ برا ہو اس عیار انگریز کا جس نے اس غریب ملک میں آفیسر شاہی کو جنم دیا ۔ہر دفتر میں ایک فرغون بیٹھا دیا ۔۔خود اپنے ملک جاکر آفسرز شاہی کو لات ماری کام میں جت گئے اب بھی دوسروں کو دیکھانے کے لیے ان کا پروٹوکول ایسا ہی ہے لیکن اپنے ہاں نہیں ان کا معیار سچائی اور کام ہے ۔۔
بیروکریٹ کے اس پرسکول گھر میں سکون کی نیند آئی صبح سجدے میں کچھ ایسی ہی دعائیں تھیں یا اللہ اس گھر کو ویسی ہی پر رونق رکھے ۔۔ان کے ہاں افیسر شاہی اور فرغونیت کی خوبو تک نہ آۓ ۔ صبح ایک بیروکریٹ خود ناشتہ بنا رہی تھی دوسرا خود دستر خوان میں ناشتہ چن رہا تھا ۔ان کی بچی ماہ رخ کو کھوار نہیں آتی تھی کیوں کہ پیدائش کے ایک سال بعد وہ والدین کے ساتھ اسٹریلیا گئی تھیں أکر مسکراتی ہوئی گلے لگ رہی تھی ان کی آنکھوں سے شرافت اور چترالی روایات کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں ۔ ایک سال کے بیٹے کی آکھیوں میں ان کا مستقبل کردار بن جھلک رہا تھا ۔۔ناشتے کے بعد مہمان نے بیروکریٹز کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا ۔۔۔بچو ! بڑائی سادگی کو برقرار رکھنے میں ہے ۔بڑائی زندگی کو زندگی سمجھنے میں ہے ۔۔بچو ! یہ وقت گزر جاۓ گا ۔۔اپنے رب سے زندگی کی بھیک مت مانگو ۔۔معیار اور عافیت کی بھیک مانگو ۔اپنا تعلق مخلوقات سے مت توڑو ۔۔یہ بیروکریٹ کا نہیں عام انسانوں کا گھر لگتا ہے اس لیے اس میں ہر طرف طمانیت اور سکون ہے ۔۔۔ اللہ کی رحمتیں ایسے گھروں پہ نازل ہوتی ہیں جہان پر رب سے بغاوت نہ ہو۔۔جہان فرغونیت پنپ نہ پاۓ ۔۔جہان رشتوں سے جوڑ مضبوط ہو ۔۔جہان پر انسان اپنی اصلیت نہ بھولے جن انسانوں کی شخصیت میں اعتبار نمو پاۓ وہی معتبر ہوتے ہیں ۔۔اس لیے افتخار عارف نے کہا تھا
میرے مولا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے ۔۔۔
آفسران شاہی کا یہ مکان بھی گھر ہے ۔۔۔۔۔
اگر کوئی پوچھے ۔۔۔
گھر کسے کہتے ہیں ؟ جواب دینے والا جواب دے
وہ مکان جہاں ” انسان ” رہتے ہوں گھر کہلاتا ہے