
وفاقی حکومت نے جب حکم صادر کیا کہ طالب علم کو پنجاب سے بلوچستان بھیج دیا گیا ہے ۔ اس وقت تک بلوچستان کا صرف نام سنا تھا ۔ کسی قسم کی کوئی واجبی معلومات تک نہیں تھیں۔ ذہن میں صرف سوال ہی سوال تھے۔ بہر حال ایک ترنگ ضرور تھی کہ پاکستان کے ان حصوں میں کام کرنے کا موقع ملے گا جہاں معمول کے مطابق جانا اور رہنا ناممکن ہے۔ حسب ضابطہ صوبہ چھوڑنے سے پہلے چیف سیکریٹری سے ملاقات کے لیے گیا۔ اے زیڈ کے شیر دل پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے ۔
انھوںنے بڑے عمدہ طریقے سے کہا کہ وہ خود بلوچستان میں کافی عرصہ گزار چکے ہیں۔ وہاں کام کرنا حد درجہ بہترین موقع ہے ۔ خدا ‘ شیر دل صاحب کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ ضابطے کی کارروائی کے بعد کوئٹہ پہنچا اور چیف سیکریٹری آفس میں جوائنگ دی ۔ بلوچستان کے چیف سیکریٹری اور ان کے دفتر کا ماحول پنجاب سے یکسر متضاد تھا ۔ سادگی ‘ تصنع سے دوری اور انسان دوستی بالکل عیاںنظر آ رہی تھی ۔ پنجاب میں جن افسروں سے ملنا ممکن ہی نہیں‘ بلوچستان میں عام لوگ دروازہ کھول کر ان سے بغیر چٹ کے مل سکتے تھے۔
چیف سیکریٹری نے تین چار منٹ ملاقات کا وقت دیا ۔ اس کے بعد سیکریٹری سروسز کے کمرے میں چلا گیا۔ دونوں کمروں کے درمیان تین منٹ کا پیدل فاصلہ تھا۔ سیکریٹری سروسز کا کمرہ کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ خالی کرسی دیکھ کر بیٹھ گیا ۔ سیکریٹری اپنی کرسی سے اٹھے اور مجھے اپنے دفتر کے ایک کونے میں لے گئے۔حیران تھا کہ ان سے کسی قسم کی کوئی شناسائی نہیں پھر وہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ پوچھنے لگے کہ چیف سیکریٹری سے کیسی ملاقات رہی ؟ جواب دیا کہ دو چار منٹ‘ آپ خود اندازہ کر لیں کہ کیسی ملاقات رہی ہو گی ۔ بس رسمی سی باتیں ہوئیں۔سیکریٹری سروسز نے ہنستے ہوئے کہا کہ جیسے ہی تم کمرے سے باہر نکلے تو باس نے انٹر کام پر مجھے کہا کہ اس افسر کو میرے ساتھ تعینات کر دو ۔ اس پوسٹ کا نام ڈپٹی سیکریٹری ٹو چیف سیکریٹری تھا۔
اٹھارویں گریڈ میں یہ سیکریٹریٹ کی سب سے اہم پوزیشن تصور کی جاتی ہے۔ اس کے لیے تو افسر بڑی بڑی سفارشیں کرواتے ہیں ۔ اس لیے کہ چیف سیکریٹری کے آفس کے تمام احکامات اسی افسرکے ذریعے صادر ہوتے ہیں۔ حیران تھا کہ مجھ پر یہ مہربانی کیوں ۔میں تو چیف سیکریٹری کاپورا نام تک نہیں جانتا ۔ سیکریٹری سروسز کے دفتر میں بیٹھ گیا ۔ کچھ دیر بعد ایک سیکشن افسر تعیناتی کا حکم نامہ لے کر میرے ہاتھوں میں تھما گیا۔
خیر ساتھ ساتھ ایک اہم مسئلہ اور بھی تھا۔ رہائش کا بندوبست نہیں تھا۔ میرے پاس ایک سوٹ کیس تھا ۔ جو امانتاً ایک اجنبی جگہ رکھوا کر آیا تھا۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سیکریٹری سروسز سے یہ کیسے استدعا کروں کہ رہائش فراہم کرے۔دو تین منٹ کی خاموشی کی وجہ شاید اس افسر نے بھانپ لی ۔ ایک کاغذ مجھے دیا جس میں درج تھا کہ سیکریٹریٹ کے نزدیک ریسٹ ہاؤس میں مجھے ایک کمرہ الاٹ کر دیا گیا ہے۔
حیرانگی دیکھ کر سیکریٹری سروسزکہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب یہ اس صوبے کی روایت ہے کہ جیسے ہی کوئی افسر یہاں تعیناتی کے لیے آتا ہے تو اسے ریسٹ ہاؤس کاکمرہ آنے سے پہلے الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ صاحبان زیست ‘ یہ بلوچستان کا وہ منفرد رنگ ہے جسے آج تک لوگوں کے سامنے نہیں لایا گیا۔ یقین فرمائیے بلوچستان کے سرکاری ملازمین اور ان کا رویہ آج بھی مثالی ہے۔ پنجاب میں توچھوٹے چھوٹے افسر‘ سائلوں کو کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں ۔ ان کے منفی رویے پر جتنی کم بات کی جائے ‘ اتنا ہی بہتر ہے ۔
پنجاب میں افسر شاہی اور عوام کے درمیان رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ محتاط الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے۔ اس کے بالکل برعکس بلوچستان ایک ایسا مثالی علاقہ ہے جس میں افسر شاہی اور عوام کے درمیان ہر دم رابطہ موجود رہتا ہے اور وہ بھی برابری کی سطح پر۔ حکمرانی کا تو خیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔وہاں بڑے سے بڑا افسر ‘ تمام لوگوں سے یکساں سلوک کرتا ہے۔
ایک عجیب سا واقعہ سناؤں۔ دو دن بعد میں وزیراعلیٰ کے سیکریٹری سے ملنے گیا تو وہاں ایک سینئر افسر پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان سے بات چیت ہو رہی تھی میں بھی بیٹھ گیا ۔ سیکریٹری صاحب کا نام آغا نیئر تھا اور وہ کمال انسان ہیں ۔ تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد ‘ انھوںنے بہت مشفقانہ طریقے سے کہا کہ بلوچستان کا مزاج آزاد منش ہے ۔
اس میں پنجاب کی بیوروکریسی کی طرح طرز عمل اپنانا مناسب نہیں۔ پہلے براجمان افسر کئی سالوں سے وہاں کام کر رہے تھے ان کا نام بھول گیا ہوں۔ میری طرف رخ کر کے مجھے ایک نصیحت کی کہ برخوردار بلوچستان کو کبھی بھی پنجاب نہ سمجھنا۔مطلب صرف یہ کہ عام لوگوں سے خوش اخلاقی اور رواداری سے پیش آنا چاہیے۔ یہ چند فقرے حد درجہ گہرائی سے پرکھنے والے ہیں ۔ان میں بہت زیادہ حکمت ہے ۔دراصل پنجاب میں انتظامیہ اور عوام کے فرق کو کبھی بھی کم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ بہت کم افسر ایسے ہیں جو خوش اخلاقی سے لوگوں کے مسائل سنتے ہیں اور پھر انھیں بردباری سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب تک سرکاری نوکری میں رہا آغا نیئر صاحب اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے سینئر افسر کی بات ہمیشہ یاد رکھی ۔ کوشش یہی تھی کہ برابری کی سطح پر ‘ خوش اسلوبی سے لوگوں کی باتیں سنی جائیں اور ان کے مسائل کو درد دل سے حل کیا جائے۔ خیر ایک آدھے دن میں چیف سیکریٹری کے بالکل نزدیک کمرہ الاٹ ہو گیا ۔ اس میں سادہ سا فرنیچر لگا ہوا تھا میز کے سامنے تین چار عام سی کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔چیف سیکریٹری سے کوئی بھی سینئر افسر ملنے آتا اور اگر وہ مصروف ہوتے تو سیدھا میرے کمرے میں آ جاتے۔ عجیب بات ہے کہ کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ جو سینئر افسر میرے پاس ملاقات کے لیے بیٹھا ہوا ہے اور ان کو میں نہیں جانتا ، گرم جوشی سے گپ شپ لگتی تھی ۔
عام سے ٹی سیٹ میں چائے یا قہوے سے تواضع غیر معمولی سمجھی جاتی تھی ۔ بلوچستان کی اصل طاقت اس کی سادگی ہے۔ وہاں کے لوگ جس کے دوست ہیں دل و جان سے ہیں اور جس کے دشمن ہیں وہ بھی آخر تک نبھاتے ہیں۔ معمول تھا کہ صبح آٹھ بجے دفتر آتا تھا ۔ کیونکہ چیف سیکریٹری تقریباً ساڑھے آٹھ بجے دفتر پہنچ جاتے تھے۔
واپسی کا کوئی ٹائم مقرر نہیں تھا کیونکہ چیف سیکریٹری شام تک دفتر میں کام کرتے رہتے تھے۔ اس وقت تک سرکاری گاڑی نہیں ملی تھی ۔ ایک دن چیف سیکریٹری کے جانے کے بعد پیدل اپنے ریسٹ ہاؤس کی طرف جا رہا تھا کہ ان کی سرکاری گاڑی واپس آتی ہوئی نظر آئی ۔
ذہن میں آیا شاید کوئی اہم کام آن پڑا ہو۔ ڈرائیور نے گاڑی میرے پاس روک لی ۔ چیف سیکرٹر ی نے پوچھا کہ آپ کو کوئی سرکاری گاڑی الاٹ نہیں ہوئی۔ کہنے لگے آپ کو ریسٹ ہاؤس خود چھوڑ کر آؤں گا۔ بہت انکار کیا مگر انھوںنے مجھے حکم دیا فوراً گاڑی میں بیٹھو ۔ مجھے بذات خود اسٹاف کار میں ریسٹ ہاؤس تک چھوڑنے آئے۔ اگلے دن صبح جب دفتر پہنچا تو ٹرانسپورٹ افسر نے ایک گاڑی کی چابی حوالے کی ۔ بتانے لگا کہ رات ہی کو چیف سیکریٹری صاحب نے حکم دیا تھا کہ میرے اسٹاف افسر کو فوراً سرکاری ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے۔ ایک پرانی سی گاڑی تھی مگر میرے لیے بہت کافی تھی ۔
ریسٹ ہاؤس میں چھ کمرے تھے اور وہ مختلف افسروں کو الاٹ کیے گئے تھے ۔ باہر والا کشادہ سا کمرہ ممبر بورڈ آف ریونیو کے زیر استعمال تھا ۔ جو خال خال ہی کمرے سے باہر نظر آتے تھے ۔ عجیب حسن اتفاق تھا کہ 12 کامن کے تمام افسر ریسٹ ہاؤس میں جمع ہو چکے تھے یعنی ہم تمام بیچ میٹس تھے بلکہ قریبی دوست بھی تھے۔حقانی کا کمرہ میرے ساتھ والا تھا اور وہ ملاحقانی کے طور پر مشہور تھا۔ اصل نام محسن حقانی تھا اور وہ حسین حقانی کا چھوٹا بھائی تھا۔
ملاحقانی غضب کا لائق اور پڑھا لکھا شخص تھا ۔ مدلل گفتگو اور حد درجہ ملکوتی باتیں کرنے والا نایاب انسان۔ پتا نہیں قدرت کی کیا مرضی تھی کہ محسن زندگی کے قافلے سے بہت جلد ‘ موت کی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔عارف الٰہی اور افتخار چوہدری بھی دونوں اسی ریسٹ ہاؤس کے مکین تھے۔ عارف کا تعلق کراچی سے ہے ۔اس کا خاندان ایک کامیاب کاروباری خاندان ہے۔
عارف الٰہی سے آج بھی رابطہ ہے بلکہ اتفاق سے دو ہفتے پہلے بھی اس سے ملاقات رہی۔ خدا کی راہ میں ‘ لوگوں میں آسانیاں پیدا کرنے والا ایسا خوشبودار شخص بہت کم دیکھنے میں آیا ہے۔ وطیرہ تھا کہ غریب آدمی کی مدد اس طرح کی جائے کہ دینے والے ہاتھ کو‘لینے والے ہاتھ کا پتہ نہ چلے۔آج بھی ‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میںخلق خدا کی خدمت بڑی خاموشی سے کیے جا رہا ہے۔ بالکل اسی طرح افتخار چوہدری بھی اپنی خاموش طبیعت کے ساتھ ریسٹ ہاؤس میں ہی براجمان تھا اور آج تک وہ اسی پراسرار خاموشی کا شکار ہے۔
(جاری ہے)






