
کوئٹہ سریاب روڈ پر شاہوانی اسٹیڈیم کے قریب خود کش حملے میں ایک پولیس اہلکار سمیت 14 افراد شہید، سابق ایم پی اے سمیت 33افراد شدید زخمی ہو گئے، تاہم سیاسی قائدین معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔
دوسری جانب بنوں میں سیکیورٹی فورسز نے وفاقی کانسٹیبلری ہیڈکوارٹر پر بھارتی سرپرستی میں سرگرم فتنۃ الخوارج کا دہشت گرد حملہ ناکام بنا دیا، فائرنگ کے تبادلے میں پانچ دہشت گرد ہلاک جب کہ چھ جوان شہید ہوگئے۔
بلاشبہ بھارت اپنی دہشت گرد پراکسیز فتنۃ الہندوستان اور فتنۃ الخوارج کے ذریعے خطے اور پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے، پاکستان خطے میں امن کا داعی اور علمبردار ہے لیکن بھارت سرکار پاکستان کے ساتھ جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ مودی سرکار نے عملاً دو مرتبہ پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی لیکن اسے دونوں مرتبہ ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔
ہماری مسلح افواج کی تیاریوں اور مہارت نے ہندو سرکار کو اس کے منصوبوں کو عملی شکل نہیں دیکھنے دی ہے انھیں کھلی اور واضح شکست سے ہمکنار کیا ہے۔ بھارت پراکسی وار میں مزید شدت لارہا ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان جیسے ایجنٹوں کے ذریعے دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنایا جا رہا ہے۔
چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس نے پاکستان اور بھارت میں حال ہی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی مذمت کی ہے اور دنیا کے تمام ممالک کے درمیان انسانی بنیادوں پر وسیع تر تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے باہمی احترام، مساوات و تعاون کے اصولوں پر مبنی عالمی نظام استوار کرنے کی بات کی۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں انتہاپسند و علیحدگی پسند گروہوں کو کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کرنے سے گریز کا مشورہ دیا گیا ہے۔
پاکستان بھی بلوچستان میں مسلح علیحدگی پسندی کے حوالے سے اسی نکتے پر زور دیتا رہا ہے۔ اس کا الزام ہے کہ علیحدگی پسند بلوچ گروہوں کو بھارتی ایجنسیوں کی براہ راست حمایت حاصل ہے تاکہ وہ انھیں پاکستان میں انتشار، بدامنی اور بدانتظامی کے لیے استعمال کرسکے۔ یہی اصول ایس سی او کے اعلامیہ میں واضح ہونے سے پاکستانی موقف کو تقویت ملی ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان پر مقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسند گروہوں کی مدد کا الزام لگایا جاتا تھا لیکن پاکستان طویل عرصے سے اس طریقہ کو مسترد کرچکا ہے۔
حال ہی میں میڈیا نے دیکھا کہ فتنۃ الہندوستان کے درجنوں دہشت گردوں نے خود سرینڈرکیا ہے۔ بھارت کس طرح بلوچستان میں فتنۃ الہندوستان کی سرپرستی، فنڈز کی فراہمی اور منصوبہ بندی کررہا ہے اور کارروائیاں روزانہ کی بنا پر جاری ہیں۔ 21مئی کو معصوم بچوں پر بزدلانہ حملہ کیا گیا۔
یہ بھارت کا دہشت گرد چہرہ اور فتنۃ الہندوستان کا ظالمانہ اور حقیقی چہرہ ہے۔ خضدار میں حملہ بھارت کے حکم پر فتنۃ الہندوستان کے دہشت گردوں نے کیا اس میں انسانیت، اخلاقیات، بلوچی اقدار اور پاکستانیت نہیں ہے۔کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ جاری ہوئی جس کے مطابق ٹی ٹی پی کے دہشت گرد جو پے در پے پاکستان پر حملے کر رہے ہیں، انھیں براہ راست کابل سے مالی اور لاجسٹک مدد ملتی رہتی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حیثیت اور طاقت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘‘ پاکستانی حکام مسلسل افغان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ان دہشت گردوں کو لگام دے لیکن اُن پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔اگر ہم پچھلے دس پندرہ برسوں پر اگر نظر دوڑائیں تو پاکستان نے وہ وقت بھی دیکھا جب کوئی دن دھماکے سے خالی نہیں جاتا تھا، اسکول، اسپتال، بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن، بازار حتیٰ کہ مساجد تک ان سفاک دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہ تھے، لیکن سلام ہو ہماری بہادر افواج پر جس نے بڑی دلیری سے اس ناسور کا مقابلہ کیا اور انھیں شہر، دیہات اور قصبوں سے نکال کر سرحد پار دھکیل دیا، آج ہمارے کھیل کے میدان آباد ہیں، معشیت مستحکم ہوچکی ہے، شرح سود اور مہنگائی میں کمی آ رہی ہے، روپے کی قیمت میں ٹھہراؤ آچکا ہے، یہ ساری کامیابی دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کار ممالک کو ہضم نہیں ہو رہی ہیں۔
اس بارے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت میں ایک کٹر بنیاد پرست ہندو حکومت قائم ہے۔ ہندو تعصب کی جڑیں معاشرے میں گہری ہیں، ہندو توا کا نظریہ کوئی خالی خولی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ و جاوید فکر ہے جس کے سائے میں اس کی گھن گرج میں کئی نسلیں پل بڑھ چکی ہیں۔
ہندو توا، ہندو معاشرے میں اپنی جڑیں رکھتا ہے۔ اس کی طویل تاریخ ہے ہندو توا کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں یہ ہندو قوم پرستی اور ہندو بالادستی کا نظریہ ہے جس کے مطابق اس نظریے کے ماننے والے بھارت کو ایک کٹر ہندو ریاست بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ آج بھارت کے سیاسی منظر پر یہ نظریہ عملاً ایک نظام کا روپ دھار چکا ہے۔ نریندر مودی اسی فکر کا پرچارک ہے۔ اس کی ذہنی ساخت اسی فکر و عمل میں ڈھلی ہوئی ہے۔ ہندوستان کو ہندو ریاست بنانے کے فکری و عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عمومی طور پر مسلمان ہی ہندو قوم پرستی کا نشانہ بن رہے ہیں۔
مسلمانوں نے ہندوستان پر صدیوں حکمرانی کی ہے۔ بھارت ماتا کی ہزاروں سالہ تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ کوئی مذہب یہاں پھل پھول سکا ہے وگرنہ یہاں جو بھی آیا ہندو معاشرے میں ضم ہو گیا۔ ہندو ازم کے گورکھ دھندوں میں الجھا اور پھر گم ہو گیا۔ اسلام نے یہاں اپنا رنگ دکھایا۔ فکر پروان چڑھائی، ہندو معاشرے پر غلبہ پایا۔ فکری طور پر ہی نہیں بلکہ تہذیبی اور سیاسی طور پر بھی حاکمیت قائم کی۔ یہ بات ہندو بھولا نہیں ہے کہ اسلام فکری طور پر ایک غالب طرز زندگی ہے اور مسلمان سیاسی طور پر غالب قوم ہیں۔
پاکستان دنیائے اسلام کی سب سے بڑی مملکت تھی جسے 1971میں بھارت نیدو حصوں میں تقسیم کر دیا اور وہ پانچویں نمبر پر چلا گیا لیکن اب بھی پاکستان کے پاس عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز ہے۔ بھارت نے قیام پاکستان کے روز اول سے ہی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے اور اسے نقصان پہنچانے، کمزور کرنے اور ختم کرنے کی کاوشیں کی جاتی رہی ہیں۔ پاکستان ہمیشہ دفاعی نوعیت کا رہا ہے، ہم نے کبھی ان معاملات میں لیڈ لینے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ہم بھارتی منصوبہ سازی کو دیکھتے ہوئے اپنی حکمت عملی بناتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے حالیہ اجلاس نے دہشت گردی اور انتہا پسندی ختم کرنے کے لیے مل جل کر کام کرنے کا اصول واضح کر کے خطے کے ممالک کو ایک نایاب موقع فراہم کیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ’رکن ممالک ہر قسم اور ہر مظہر میں دہشت گردی کی سخت مذمت کرتے ہیں، اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہرا معیار ناقابل قبول ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ کرے، بشمول دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت، اور متعلقہ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کی عالمی انسداد دہشت گردی حکمت عملی کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق مکمل طور پر نافذ کرے۔ رکن ممالک بین الاقوامی دہشت گردی پر ایک جامع کنونشن کو متفقہ طور پر اپنانے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
اس وقت بیرون ملک سے آپریٹ ہونے والے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے نوجوان نسل کے ذہنوں کو پراگندا کیا جا رہا ہے، بدقسمتی سے ہماری کچھ سیاسی جماعتیں بھی ان کے مذموم مقاصد میں استعمال ہو رہی ہیں، ہماری نوجوان نسل کو سمجھنا ہوگا کہ کہیں وہ کسی کے مذموم سیاسی عزائم کا ایندھن تو نہیں بن رہے؟ کہیں اُن کے اس عمل سے دہشت گردوں کو فائدہ تو نہیں ہو رہا اور ہماری سیاسی جماعتیں بھی ہوش کے ناخن لیں،اپنے وقتی سیاسی مفاد کے بجائے اس ملک کا سوچیں۔ اپنے کارکنوں کو ایجوکیٹ کریں۔
تاریخی طور پر، جہاں قومیں متحد ہو کر انتہا پسندی کا مقابلہ کر چکی ہیں، وہاں شعور، طاقت اور کوشش کے ملاپ نے کامیابی دی ہے۔ اس میں پاکستانی قوم بھی قطعی طور پر کسی طور پیچھے نہیں ہے، ہم نے دشواری کے باوجود اپنی جڑیں مضبوط رکھی ہیں۔ آج بھی ہمیں اس ویژن کی بنیاد پر قدم بڑھانے کی ضرورت ہے، ایک ایسے ملک کی بنیاد پر جہاں دہشت گردی کا کوئی جگہ نہ ہو۔
دہشت گردی کا خاتمہ محض اندرونی سطح پر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی تعاون کے بغیر بھی مکمل نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنے ہمسایہ ممالک، خطے کی قوتوں، اور عالمی اداروں کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ، سرحدی نگرانی، مالیاتی تحفظ، اور دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کی روک تھام میں مربوط کوششیں جاری رکھیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک لمبا سفر ہے، جس میں کبھی کامیابی، کبھی ناکامی،کبھی امید اور کبھی مایوسی کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن اگر ہمارا عزم پختہ ہو اور ہماری حکمتِ عملی جامع ہو تو وہ دن ضرور آئے گا جب پاکستان امن، استحکام، ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنے گا۔