
میرے محترم استاد محمد جناب شاہ مرحوم – یادیں اور باتیں- پروفیسراسرارالدین
مجھے خوشی ہو رہی ہے۔ کہ میں اپنے ایک عظیم استاد محمد جناب شاہ مرحوم کے حوالے سے کچھ یادیں اور باتیں آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں، وہ ایک نابغہ روز گار شخصیت تھے۔ استاد الاساتذہ جنہیں ہم محسن چترال کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
ایک زمانہ تھاجب چترال کی وادیوں میں عصری تعلیم کا چراغ نہایت کمزور اور ابتدائی دور سے گزر رہا تھا۔ اس وقت یہ عظیم شخصیت ابھری جنہوں نے اس کمزور روشنی کو شغلہ فروزان سے بدل دیا۔ وہ چترال کے پہلے بی ایڈ تھے۔ لیکن ان کا علم اور کردار ہرڈگری سے بڑا تھا۔ اس نے عصری تعلیم کو وادی کو ہسار میں پھیلانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو دلوں میں اتار دیا۔
میں چترال ہائی سکول کا 1943 ء سے 1953 طالب علم رہا تھا۔ اس دوران بعض واقعات خاص طور پر مجھے یاد ہیں۔ ایک واقعہ استاد محترم جناب شاہ صاحب مرحوم کی بہ حیثیت ہیڈماسٹرسکول میں آمد کی تھی۔ ان سے پہلے محترم حمید اللہ مرحوم المعروف مداکیچی استاد ہیڈ ماسٹر تھے۔ مداکیچی استاد پشاور میں ایک سکول میں سینئر استاد رہے تھے۔ ہزہائی نس محمد ناصر الملک نے جب چترال سکول کی بنیاد رکھی۔ تومدا کچی استاد کو وہاں سے بلا کے سکول کا ہیڈماسٹر مقر ر کیا۔ اس زمانے میں جناب شاہ مرحوم طالب علم تھے۔ مدا کچی استاد مرحوم کے زمانے میں سکول کومڈل کا درجہ ملا اور 1943 ء میں پہلی دفعہ آٹھویں جماعت کے طلباء ڈیپا نمنٹل امتحان میں شامل ہوئے اور کامیاب ہوئے۔ یہ
اس وقت چترال کی تعلیمی تاریخ کا اہم سنگ میل تھا۔
تقسیم انعامات کے سالانہ تقریب میں ہزہائی نس ناصرالملک اور اس وقت کے انگریز اسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ
جسے ملکی کہا جاتا تھا۔ اور دیگر ریاستی زعماء شامل تھے۔میں قاعدہ کلاس کا طالبعلم تھا۔ اور تقریب میں حاضرتھا ۔ اس وقت ہیڈماسٹر مداکچی استادمرحوم نے اپنی سالانہ رپورٹ میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ان کا ایک طالب علم عبد المراد معاشرتی علوم میں تمام سابق صوبہ سرحد میں فرسٹ آیا. (یاد رہے کہ عبدا لمراد کا تعلق لوٹکوہ کے اورک سے تھا۔ بعد میں اس نے اپنے علاقے میں عصری تعلیم کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا اور استادالاساتذہ کہلایا۔
مدا کچی استاد مرحوم کے ایک واقعے کابرسبیل تذکرہ اگر ذکر کروں بے محل نہ ہوگا۔ چترال سکول میں ہیڈماسٹر مقرر ہونے کے بعد ان کاتھوڑا عرصہ ہوا تھا۔ ایک دن وہ کسی کام کے لئے جوڈ یشل کونسل میں گئے۔ وہاں ایک کرسی خالی تھی۔ جس پر بیٹھ گئے۔ کو نسل کے رکن لال صاحبان کو ان کا یہ عمل ناگوار گذرا۔ ان میں سے ایک نے استاد مرحوم کو ڈانٹا کہ تم کون کرسی پر بیٹھنے کی جسارت کر رہے ہو۔ وغیرہ چنانچہ استاد مرحوم اسی وقت اٹھے۔ اور واپس پشاور چلے گئے۔ ہزہائی ناصر الملک کو اُس کا پتہ چل گیا۔ تو ان کونسل والوں پر بہت ناراض ہوئے۔ اور خاص آدمی استاد مرحوم کے پیچھے بھیج کربہت زیادہ منت سماجت کرکے ان کوواپس بلایا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس زمانے میں ہمارے یہاں عام طور پر ہمارے اشرافیہ کا کیا مزاج تھا۔ لیکن دوسری طرف ہزہائی نس موصوف اساتذہ کرام کی بہت عزت کرتے تھے۔ خاص طور پر مدا کچی استادکو گویا اپنی آنکھوں پر بٹھاتے تھے۔ ان کے مصاحب یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے۔ ہزہائی نس موقع درموقع لوگوں پر یہ جتانے کی کوشش کرتے کہ استاد کا کیا مقام ہونا چاہئے۔ خوش قسمتی سیعام لوگ اساتذہ کا بہت زیادہ احترام کرتے کوئی بھی استاد بازار سے گزرتا۔ لوگ اس کے احترام میں کھڑے رہ جاتے۔ یہ بات آپ کو عجیب معلوم ہوگی کہ استاتذہ کرام طلباء کو بازار جانے سے منع کرتے۔ اور اور ان کو خود بھی ہم نے کبھی بازا رمیں بیٹھ کر گپ لگاتے نہیں دیکھا۔
غالباً 1945ء میں استاد محترم جناب شاہ بی ایڈ یا بی ٹی کرکے چترال آئے۔ یہ ہزہائی نس مظفرالملک کا زمانہ تھا۔ اور ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے یہ واقعہ اس زمانے ٹاک آ ف دی ٹاؤن بن۔ گیا۔ لوگ یہ تذکرہ کرتے رہتے تھے۔ کہ چترال سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان کہ ھسے انگریزی تعلیمو کھلے اساک بیرائے پشاور سے آئے ہوئے ہیں۔ اور ہزہا نس نے ان کو چترال سکول کا ہیڈماسٹر مقر ر کیا ہے۔ یہ بات بھی مشہور ہوئی – کہ ہزہائی نس نے ان کو چترال کے وزیر اعظم دلارام خان کی تنخواہ کے برابر تنخواہ اور روزینہ مقرر کیا ہے۔ اور واقعی بات بھی یہ صحیح تھی، شاہی دربار میں استاد محترم کی بہت زیادہ پذیرائی ہوئی تھی۔ تنخواہ کے علاؤہ شاہی باورچی خانے سے ان کے لئے کھانا مقررہوا تھا۔ جو اس زمانے میں بہت بڑا اعزاز تھا اس وقت گویا ہمارے استاد محترم کی شاہی پروٹو کول میں حیثیت کیا تھی آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مجھے یاد ہے اسی ہال میں ایک تقریب میں مدا کچی استاد محترم نے ان کا تعارف فرمایامعلوم ہوا کہ سکول میں جناب شاہ صاحب مداکچی استاد کے کسی وقت شاگردبھی رہ چکے تھے
• بعد میں استادی شاگردی کے تعلق کو جناب شاہ مرحوم تمام عمر خوبصورتی سے نبھاتے رہے۔ جناب شاہ مرحوم کے آنے سے پہلے چترال کا سکول ورنیکلر (یعنی اردو زبان والا) سکول تھا۔ ان کے آنے کے بعد انگریزی زبان پانچویں جماعت سے متعارف ہوئی اور سکول کو اینگلو ورنیکلر کا درجہ ملا۔ 1951 ء کو چترال مڈل سکول کو اس وقت کے ایڈیشنل پولیٹکل ایجنٹ میراعجم خان نے ہائی کا درجہ دیا۔ اور جناب شاہ اس کے پہلے پرنسپل بنے 1954 ء میں جب چترال ریاست میں نئی تنظیم کا اجرا ہوا تو آپ کو سکریٹری ایجو کیشن یا وزیر تعلیم کا عہدہ دیا گیا۔ 1959ء میں آپ کی خدمات پر حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ خدمت کا اہم تمغہ ملا – 1969ء میں ضلع بننے کے بعد ڈی ای او کاعہدہ ملا -اپنے
چترال میں سکولوں کا ایک زبر دست جال پھیلایا جن میں سے کئی ہائی سکول کئی مڈل سکول اور بے شمار پرائمری سکول شامل تھے۔ آپ نے نہ صرف اپنے زمانے میں تعلیمی اداروں کو پھلانے کی کوشش کی بلکہ مستقبل کے لئے تعلیمی اداروں کے پھیلانے کی منصوبہ بندی کی۔ جن کوآپ کے جانشینوں نے عملی جامہ پہنایا۔ استاد محترم کے چترال کے مختلف حصوں میں عصری تعلیم کے پھیلانے کے سلسلے میں محنت و مشقت پر مختلف حضرات نے بات کی ہے۔ اسلئے اسکو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اس سلسلے میں اتنا عرض کروں گا۔ کہ انہوں نے گا وں گاوں جاکر والدین کو قائل کیا۔ کہ اپنے بچوں کو سکول بہجھیں۔ اسوقت یہ آسان بات نہیں تھی۔ مگر ان کی محبت اور شفقت دلیل کے انداز نے لوگوں کے دل بدل دیئے اور لوگوں نے بخوشی اپنے بچوں کو سکول میں داخل کرنا شروع کیا۔
استاد محترم نہ صرف نصاب کے استاد تھے۔ بلکہ زندگی کے استاد تھے۔ وہ کہاکرتے تھے کہ تعلیم روشنی ہے۔ اور روشنی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ دوسروں تک پہنچائی جائے۔
مجھے یاد ہ یے کہ نویں جماعت میں ہمارے ایک کلاس فیلو کو اپنے لا ولد چچا کی وفات پر بہت ساری دولت ورثے میں ملی۔ وہ تعلیم چھوڑ کر کاروبارکرنا چاہتے تھے۔ استاد محترم کو اس کا بہت افسوس ہورہا تھا۔ انہوں نے کلاس روم میں اسکو اور ہم سب کو لیکچر دے کر یہ سمجھاتے رہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ اور دنیا کے لوگوں نے تعلیم کی بدولت کیسی ترقی کی اور آگے نکل گئے۔ اور مذکورہ طالبعلم نے اپنی ضد پرتعلم حاصل کرنے کا سلسلہ چھوڑ دیا۔ ایک سال کے اندر جو کچھ دولت حاصل کی تھی۔ وہ اڑا دیا اور دوبارہ سکول میں داخل ہو کر تعلیم مکمل کی”اور بعد میں اچھی نوکری حاصل کی۔استاد محترم نہایت محنتی تھے۔ ہمیں پانجویں جماعت سے آٹھویں تک(ماسوائے چھٹی کے انگریری پڑھائی۔(چھٹی جماعت میں عبدالمنان مرحوم المعروف (کاغذرواستاد) نے(انگریزی پڑھائی)میٹرک میں آپ نے ریاضی ہمیں پڑھائی انگریزی گرامر پر بہت زور دیتے تھے۔انہوں نے تمام اہم قواعد ہمیں ازبرکرائے تھے جو کالج لائف اور بعد میں ہمارے کام آتے رہے۔ وہ خود بھی محنت کرتے اور طلباء سے لاٹھی کے زور سے خوب محنت کراتے تھے۔ آٹھویں، نویں اور دسویں کی کلاسوں میں سردیوں کی چھٹیوں میں خود سکول آتے اور ہمیں بھی ہدایت تھی کہ ہم بلاناغہ آ جائیں۔ تا کہ وہ ہمارے ساتھ تمام اسباق کی دھرائی کر سکیں۔
کئی دفعہ ہمیں برفباری میں بھی آناپڑا۔
اور وہ خود بھی ضرور تشریف لاتے۔جب استاد محترم ایسے حالات میں کلاس میں داخل ہوتے۔ تو ہم سب کا دل ادب سے جھک جاتا۔ ان کے چہرے کی مسکراہٹ اور انکی انکھوں کی شفقت ہمارے اعتماد کو بڑھادیتا۔ ان کی محبت کی گرمی ہمیں چترال کی یومونی کو بھلادیتی۔ وہ کہا کرتے کہ استاد کی خوشی اور کامیابی اس وقت ہے۔ جب اپنے شا گردوں کو کامیاب زندگی گزارتے دیکھے۔وہ ایک کمالیت پسند شخصیت تھے۔ چاھتے کہ کوئی بھی کام کرو بہترین انداز میں کرو۔ٹرخالوجی کو نا پسند کر تے تھے۔ مجھے یاد ہے جب پشاور ریڈیوسے 1965 میں 15 منٹ کا کھوارپروگرام شروع ہوا تو ہمارے پروگراموں کے بارے میں استاد محترم کا ایک لمبا خط آیا۔ جس میں پروگرام کے مختلف پہلوؤں یعنی ستار کی ٹیوننگ، خبر دینے والوں کا انداز، تقریر کرنے والوں کے لہجے،پروگرام کی ترتیب وغیرہ پر تفصیل سے تبصرہ کیا تھا۔ ہمیں مشورہ دیا تھا۔ کہ
بی بی سی اردو پروگرام کے طرزپر اپنا پروگرام ترتیب دو۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کہ ہر چیز کے بارے میں ان کا معیار کیا تھا اور ہر بات کو کس باریکی سے وہ جج کرتے تھے۔ استاد محترم ایک ماہر ستار نواز تھے۔ان کے کمرے میں ہمیشہ ایک خوبصورت ستار لٹکا رہتا تھا اور فارغ وقت میں اس سے دل بہلاتے رہتے تھے۔ وہ ایک اچھے سپورٹس میں بھی تھے۔ کالج میں ہاکی کے بہترین کھلاڑی رہ چکے تھے۔ اور فورتھ ائیر میں کالج ٹیم کے کپتان رہ چکے تھے کلر حاصل کردہ تھے ۔ کالج کی ٹم کے ساتھ کابل اور ہندوستان کے بعض اہم شہروں کا دورہ بھی کرچکے تھے۔ کالج کے اساتذہ اور خاص طور پر پرنسپل آئی ڈی سکاٹ ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ ہاکی کے کسی اہم کھیل کے بعد چائے کے میز پر ان کو اپنے ساتھ بٹھاتے تھے
استاد محترم انگریزی کے بہتریں استاد ہونے کے ساتھ ایک نہایت اچھے لکھاری بھی تھے۔
سنا ہے کہ انہوں نے انگریزی میں چترال کی ایک مختصر تاریخ بھی لکھی ہے۔ جس کا مسودہ موجود ہے۔ ایک دفعہ انہوں نے کلاس میں اپنا ایک واقعہ بیان کیا۔ کہ گریجوئیشن کے بعد وہ ان کے کچھ ساتھی لاہور گئے۔ وہاں وہ کئی اہم تعلیمی ادار ے اور دوسرے تاریخی مقامات کی سیر کی وہاں ایک بر صغیر میں نہایت اہم گرلز کالج کا دورہ بھی کیا جسکی پر نسپل ہندوستان کی مشہور انگریزی شاعرہ سروجنی نائیڈو کی بہن تھی۔ یہ ان سے ملے اپنا تعارف کرایا۔ وہ بہت خوشی ہوئی۔ ان کو بتا یا کہ کہ میں اپنے اس کا لج کی بچیوں کی اس طرح تربیت کررہی ہوں۔ کہ آگے چل کے یہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لئے مردوں کے شانہ بہ شانہ جد و جہد کرینگی(واقعی بعد میں ایسا ہی ہوا۔ کہ اسی کالج کی کئی طالبات پاکستان تحریک کے اہم قائدین میں شمار ہویں)۔ موصوفہ نے جناب شاہ اور ان کے ساتھیوں سے کہا کہ آپ لوگ ہمارے اس کالج کو دیکھیں ان پھر یہاں دفتر میں بیٹھ کے اپنے مشاہدات کے بارے لکھ کے مجھے دیدیں چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔ اور اپنے مشاہدات لکھ کے ان کو پیش کیا۔ مو صوفہ پرنسپل نے جناب شاہ صاحب کی تحریر پر یہ تبصرہ لکھا۔
”I am happy to say that you can see, you can think and you can write.” مجھے یاد ہے۔ جب میں لندن میں پڑھ رہا تھا۔ ہمارے کچھ ساتھوں نے کراچی کی ایک سیٹھ خاندان کی مدد سے ایک منتھلی رسالہ خاتون کی اسلامک نیوز انٹرنیشنل کے نام سے سے نکالا۔ جو بہت کم عرصے میں تمام اسلامی دنیامیں مشہور ہوا۔ اس کے مختلف شما روں میں میرے محترم استاد کے مختلف دینی موضوعات پر لمبے لمبے خطوط چھپتے تھے۔
اس زمانے میں لوگ انگریزی میں خط لکھانے کے لئے استاد محترم کے پاس آتے تھے۔ اس طرح کے ایک خط سے ایک دفعہ ان کی نوکری جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہوا یوں کہ شاہی خاندان کے ایک اہم فرد کو اس زمانے کے اے پی اے یاوزیرا عظم سے کچھ شکایت ہوئی۔ انہوں ان کے خلاف استاد جی سے کچھ لکھوا کے تار گھر دیدیا۔ تاکہ آگے ارسال کرے۔ تار گھر افیسر نے اس تار کو آگے بھیجنے کی بجائے اے پی اے صاحب کو لا کے پیش کیا۔مذکورہ صاحب ایک نہایت تیز دماغ افسر مشہور تھے۔
چنانچہ استاد محترم عتاب میں آگئے۔ اس اللہ کے بندے نے یہ بھی نہیں دیکھاکہ اس شخصیت کی علاقے میں کیا مقام ہے۔ ان کے کیا خدمات ہیں۔وہ نہ معلوم کیاکچھ کرتے لیکن خوش قسمتی بعض اہم لوگوں نے معاملے کو سلججھا لیا۔
ٓٓ
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کہ یہ واقعہ استاد محترم کی زندگی کا کس قدر تلخ تجربہ ہوگا۔ وہ ضرور سوچتے ہوں گے۔کہ اگر ایف ایس سی کرنے بعد 1943 ء میں جب وہ ائیر فورس میں بحیثیت پائلٹ أفسر سلیکٹ ہوے تھے۔ بھرتی ہوتے۔ اورہز ھائی نس محمد نا ناصر الملک ہدایت کے مطابق ایجوکیشن میں نہ آ تے تو سیر مارشل اصغر خان اور نور خان سے صرف دو سال جونیئر ہو تے۔ اور اس دن وہ ائیر فورس میں کس پوزشین میں ہوتے۔بہرحال میرے استاد محترم کو علامہ اقبال کا ایک شعر بہت پسند تھا۔ وہ یہ تھا۔۔ نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب کہ گرتوں کو تھام لے ساقی۔اور انہوں نے خود کو اس شعر کا مصداق بنانا تھا اور انہوں نے چترال آکے یہاں کے لوگوں کی زندگی بد لنی تھی۔ یہاں کی پہچان بننا تھا۔ ان کے بغیر چترال کی ریاست نہ معلوم کب تک تعلیم سے بانجھ ایک ریاست رہتی۔
آج زمانہ بدل گیا ہے لیکن محسن چترال محمد خباب شاہ کی محنت کا اثر۔ ان کی قربانی کا ثمر۔ بہ حیثیت ماہرتعلیم ان ان کا ہنر۔ ان کی دیانت اور صداقت کا جوہر۔ اوران کی محبت و شفقت کا اثرآج بھی باقی ہے۔
وہ ہماری سماجی تا ریخ کا حصہ ہی نہیں وہ ہر کامیاب شاگرد کی کامیابی ہیں۔ہر سکول کی گھنٹی ہیں۔ہرطا لب علم کی معصوم ہنسی ہیں زندہ ہیں۔
۔ اور زندہ رہینگے۔جناب شاہ کی خدمات چترال کبھی نہیں بھلا سکتا آپ نہ صرف ہمارے ماضی کے رہنما تھے۔ بلکہ آنے والتے زمانوں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔آپ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہینگے۔کسی نے کہا ہے کہ استاد ابتدائی کئی سالوں تک طلباء کی پہچان ہوتی ہے۔ اور بعد میں طلبا استاذ کی پہچان بن جاتے ہیں۔۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ جناب شاہ صاحب پہلے بھی ہمار ی پہچان تھے۔ اب بھی ہیں اور ہمیشہ رہنگے۔ اس ہال میں جتنے حضرات تشریف فرما ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں ہر ایک کا شاگردی کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح ضرور استاد محترم جناب شاہ صاحب تک ضرور پہنچتا ہو گا۔آخیرمیں یہ دعا ہے کہ:اے اللہ تعالیٰ ہمارے استاد محترم جناب شاہ پر اپنی بے پایاں رحمتیں نازل فرمائے۔
ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان کی محنت کو صدقہ جاریہ بناے یا اللہ: ان کے نفش قدم میں ہمیں بھی علم پھیلانے والا، خیربانٹنے والا، اور آنے والی نسلوں کے لئے روشنی چھوڑ جانے والا بنا۔
امین با رب العالمین
نوٹ – یا یہ مقالہ ”محسن چترال“ ایک روزہ سمینار جو اسامہ و رائج کیریر اکیڈمی کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا۔ میں پڑھا گیا تھا۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش ہے۔