
سرسلطان محمد شاہ آغا خان سوئم کی مسلمانانِ ہند کی علمی ترقی کے لئے کاوشیں – تحریر: اشرف خان
سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم جو شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کے 48ویں موروثی امام اور تحریکِ پاکستان کے فعال سیاسی رہنما تھے، 2 نومبر 1877ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ اُن کی شخصیت اپنی بصیرت، عملی حکمت اور مسلم معاشرے کی فکری و تمدنی تشکیلِ نو کے حوالے سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اُن کی سب سے نمایاں خدمات خصوصاً تعلیمی اداروں کے قیام اور فروغ میں تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔ اُن کا تعلیمی وژن محض روایتی تدریس یا نصابی تعلیم تک محدود نہ تھا بلکہ وہ ایک ایسے نظامِ تعلیم کے داعی تھے جس میں جدید ٹیکنالوجی، عملی علوم، زراعت، طب اور دینی تعلیم یکجا ہو کر ایک ہمہ جہت تربیتی نظام قائم کرے، جو مسلمانانِ ہند کو عصری تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کے قابل بنائے۔ اُن کی خواہش یہ تھی کہ علیگڑھ سمیت برصغیر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا معیار بالاخر آکسفورڈ اور کیمبرج جیسے بین الاقوامی جامعات کے ہم پلہ ہو۔
آغا خان سوئم کے نزدیک علیگڑھ کی صورت میں ایک ایسا مرکزِ علم و تحقیق درکار تھا جو“مسلمانوں کے لیے نہ صرف علمی تحقیق اور فکری قیادت کا سرچشمہ ہو بلکہ اخلاقی نشوونما کا بھی منبع بنے، اور ایسے لوگ پیدا کرے جو علمی و اخلاقی قوت کے ساتھ ملک کے وسائل کو بروئے کار لا کر تجارت و صنعت کے قائد، معاشرتی رہنما اور اپنی قوم کے مربی و معلم بن سکیں”(کے۔ کے۔ عزیز، آغا خان سوئم، لندن، 1998، ص 326)۔
بطورِ امامِ وقت، آغا خان سوئم نے رفاہی و تعلیمی اداروں کے قیام میں قیادت فراہم کی اور اُس موروثی روایت کو بھی آگے بڑھایا جو اُن کے آباواجداد کا تاریخی ورثہ،خصوصاً فاطمی خلافت کے ادوار میں جامعۃ الازہر اور دارالعلم جیسے اداروں کی قیام کی صورت میں تاریخِ اسلام میں ثبت ہے۔
جیسا کہ اُنہوں نے اور اُن کے ہم عصر جدید مسلم مفکرین نے مشاہدہ کیا کہ مغل سلطنت کے زوال کے بعد برصغیر کے مسلمان فکری جمود، سماجی مایوسی اور تہذیبی انحطاط کا شکار ہوگئے تھے اور زمانے کی رفتار کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کر پا رہے تھے۔ مسلمانوں کے پاس ایسے تعلیمی ادارے موجود نہیں تھے جو انہیں سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے عملی اقدامات پر آمادہ کر سکیں۔ یہی وہ احساس تھا جو بعض جدید مسلم مفکرین کے درمیان پیدا ہواکہ اُن کے ہم مذہب مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رہ گئے ہیں۔
جیسا کہ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں،“مسلمان زندگی کے ہر میدان میں شکست و پسماندگی کے احساس کا شکار ہو چکے تھے”(المیہ تاریخ، 2005، ص 82)۔
۱۸۹۳ء میں محض 16 برس کی عمر میں ممبئی میں آغا خان سوئم کی ملاقات نواب محسن الملک سے ہوئی جو تحریکِ علیگڑھ کے صفِ اول کے رہنما تھے۔ 1896ء میں اُن کا سر سید احمد خان سے بالمشافہ تعارف علیگڑھ میں ہوا۔ اس ملاقات نے باہمی اعتماد اور فکری ہم نوائی کو جنم دیا یہاں تک کہ 80 سالہ سر سید نے اس 20 سالہ نوجوان کی قائدانہ صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے قوم کی ایک بڑی ذمہ داری اُن کے سپرد کر دی۔ سر سید کے نزدیک مسلمانوں کے لئے جدید علوم سے مزین ادارہ ایک تہذیبی ضرورت تھا۔ آغا خان سوئم نے اس اعتماد اور تجویز کو قبول کرتے ہوئے علیگڑھ کالج کو ایک جامعہ کے درجے پہ فائز کرنے کی ذمہ داری بطور خاص اپنے ذمے لی۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے ہند کے طول و عرض میں ایک تاریخی چندہ مہم شروع کرنے سے قبل بذاتِ خود ایک لاکھ روپے عطیہ کیے۔ اُن کی تقریروں نے مسلم سماج میں ایک قومی شعور اور ذمہ داری کا احساس پیدا کیا اور ہر شہر میں اُن کا استقبال غیر معمولی تھا۔ مولانا شبلی نعمانی نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا کہ“چھ کروڈ مسلمان ایک کام انجام نہ دے سکے جسے (سر آغا خان) نے اکیلے انجام دیا”(زواہر معیر، تاریخِ آئمۂ اسماعیلیہ، جلد 4، 1983، ص 70)۔
سر آغا خان سوئم کی کرشماتی قیادت کے نتیجے میں جدید طرز کی مسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے جو مہم شروع ہوئی، ا ُس کا نعرہ“اب یا کبھی نہیں”تھا۔ جیسا کہ پروفیسر ریاض حسین کے مطابق، برصغیر کے مسلمان سر آغا خان کے اِس بے مثال احسان کے مقروض ہیں کہ قوم کی تعلیمی ترقی کی خاطر اپنی راحت اور شاہانہ رتبے کو پسِ پشت ڈال کرہندوستان کی گلی گلی چندہ جمع کرنے نکلے۔ (پیسہ اخبار، 11 فروری 1911)۔ اُنہوں نے خود اپنے جذبۂ خدمت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ،:
“ایک درویش کی مانند میں اب گھر گھر اور کوچہ کوچہ مسلمانان ِہند کے بچوں کے لیے بھیک مانگنے نکلا ہوں”
(اسماعیلی بلیٹن، نومبر 1977)
افضل عثمانی (2011) اس ضمن میں ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ فنڈ ریزنگ مہم کے دوران ایک روز آغا خان بمبئی جاتے ہوئے اپنے شدید ناقد سے ملے اور چندہ مانگے۔ ناقد نے پہلے 5000 روپے کا چیک دیا۔ آغا خان نے اپنی ٹوپی اتار کر کہا،:
“ایک فقیر کی مانند میں تم سے اسلام کے بچوں کے لیے کچھ مانگتا ہوں۔ اس پیالۂ درویشی میں کچھ ڈالو”
یہ سن کر اُس کے دل پر ایک اخلاقی و جذباتی انقلاب طاری ہوا، اور اس نے نمناک آنکھوں کے ساتھ مزید 15000 روپے کا چیک تحریر کیا، اور عرض کی کہ،:
’حضور! اب سوال کی نوبت میری ہے۔ میں خدا کے نام پر آپ سے اُن کلمات کی معافی چاہتا ہوں جو میں نے آپ کے خلاف کہے، مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کا مقام اتنا بلند ہے۔‘
آغا خان نے جواب دیا،:
’پریشان نہ ہوں، اسلام اور مسلمانوں کی خاطر میرا شیوہ یہی ہے کہ میں خطاؤں کو معاف کر کے بھلا دیتا ہوں۔‘
اُن مسلسل کوششوں کے نتیجے میں اکتوبر 1920ء میں علیگڑھ یونیورسٹی کو باضابطہ چارٹر عطا ہوا اور 17 دسمبر 1920 کو اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ بعد ازاں علیگڑھ یونیورسٹی کے ٹرسٹیز نے “آغا خان اسکالرشپ فنڈ” قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کے لیے باصلاحیت افراد کو تیار کیا جن میں ڈاکٹر ضیاء الدین احمد، ڈاکٹر ولی محمد اور ڈاکٹر کریم حیدر شامل ہیں جو بعد ازاں بالترتیب علیگڑھ، لکھنؤ اور عثمانیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔
سر آغا خان سوئم نے علی گڑھ یونیورسٹی کے علماء و محققین کی مالی معاونت اور سرپرستی بھی کی تاکہ وہ سیاست، معیشت، فلسفہ، اخلاقیات اور تعلیم جیسے موضوعات پر اسلامی نقطۂ نظر سے کتب تصنیف کریں۔ انہوں نے کراچی میں سائنسی تحقیق کے ایک ادارے کے قیام کے لیے دس لاکھ روپے بھی پیش کیے، کیونکہ آپ سائنس اور جدید نظامِ تعلیم کے بارے میں انتہائی فکرمند تھے۔ برصغیر کے طول و عرض میں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے فروغ کے لیے آغا خان اسکولوں کا قیام بھی اسی وژن کاتسلسل ہے؛ سب سے پہلا سکول 1905ء میں منڈرا (ہند) اور گوادر (پاکستان) میں قائم ہوئے۔

آغا خان سوئم تعلیمِ نسواں کے غیر متزلزل حامی تھے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانانِ برصغیر کو خواتین کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا بلکہ اُسے مردوں کی تعلیم سے برتر قرار دیا، اِس استدلال کے ساتھ کہ عورت پوری نسل کی تربیت کا محور ہوتی ہے۔ اسی تناظر میں 1946ء میں گلگت بلتستان جیسے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں “ڈائمنڈ جوبلی اسکولز” کا قیام عمل میں آیا، جو اُن رقوم سے تعمیر ہوئے جو پوری دنیا سے اُن کے عقیدت مندوں نے ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر عطیہ کی تھیں۔ اِن اسکولزنے گلگت بلتستان کے ایجوکیشن سیکٹر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
آغا خان سوئم کی زندگی محض تعلیمی میدان تک محدود نہ تھی؛ انہوں نے سیاسی میدان میں بھی عالمی اور بین الاقوامی فورمز پر مسلمانوں کے اجتماعی حقوق اور سیاسی تشخص کے لیے عملی و مؤثر وکالت کی۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے ایک موقع پر آغا خان ِ سوئم کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ:
’ہم نے یہ مطالبات آغا خان کی رہنمائی میں کانفرنس کے سامنے رکھے ہیں، اس رہنما کے ہم قدردان ہیں اور جسے مسلمانانِ ہند محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔‘
(چترال ٹائمز، 2 نومبر 2012)
سر آغا خان سوئم نے ایک مثالی زندگی گزاری اور 11 جولائی 1957 کو وفات پائی۔ ان کے انتقال کے بعد ان کے پوتے شاہ کریم الحسینی، ہزہائی نس آغا خان چہارم، جو ہارورڈ یونیورسٹی کے طالبِ علم تھے، اُن کے “وصیت نامے” کے مطابق دنیا بھر کے شیعہ اسماعیلی مسلمانوں کا اُنچاسواں موروثی امام مقرر ہوئے۔

سر آغا خان سوئم کی مسلمانوں کی ترقی کے لیے خدمات اُن کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہوئیں بلکہ اُن کے جانشین نے اُن مقاصد کو مزید وسعت اور ادارہ جاتی نظام کے ساتھ آگے بڑھایا۔ 19 دسمبر 2013 کو آغا خان یونیورسٹی اسپتال کراچی کے کانووکیشن میں اُن کے جانشین اور پوتے پرنس کریم آغا خان چہارم نے فرمایا:
’یہ ایک روایت تھی جو ہم نے اپنے دادا جان سے وراثت میں پائی اور یہ کوئی جامد روایت نہیں تھی، بلکہ ایسی روایت تھی جو نئے علم کی قوت اور سیکھنے کے عمل کو جاری رکھنے کے عظیم سفر پر مبنی تھی۔‘
چنانچہ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے مختلف علمی و رفاہی ادارے مثلاً آغا خان یونیورسٹی (کراچی، مشرقی افریقہ، برطانیہ)، یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیا، آغا خان اکیڈمیز آف ایکسیلنس، اور آغا خان ایجوکیشن سروسز دراصل اُس فکری اور تمدنی سرمائے کا ادارہ جاتی تسلسل ہیں جس کی بنیاد سر سلطان محمد شاہ آغا خان سوئم نے جدید مسلم سماج کے تناظر میں رکھی تھی۔
خلاصہ کلام یہی ہے کہ سر آغا خان سوئم بیسویں صدی کے ممتاز مسلم قائد، مفکر اور مصلح تھے۔ مسلمانانِ ہند کی سماجی و علمی ترقی کے لئے اُن کی گراں قدر خدمات صدیوں تک یاد رہے گی۔ اُس عظیم ہستی کو اُن کایومِ ولادت بہت بہت مبارک ہو۔
(نوٹ) راقم نے یہ مقالہ ۲۰۱۵ میں انگریزی زبان میں لکھا تھا جس کا اردو ترجمہ دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
Writer : Ashraf Khan






