
بونی بوزند روڈ 15 سال کا گند،1 سال کی جدوجہد، اور آج کی حقیقت – جوابی تحریر۔ عبد اللہ
محتر م حواجہ خلیل صاحب نے اپنی تحریر میں زیا دہ تر حقائق کو چھپا کر صرف تصویر کا ایک رخ چھیڑا ہے جو کہ قابل تصحیح ہے اورسادہ لوح عوام کو حقائق سے آ گاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مدلل جواب کے طور پر ہم نے یہ تحریر کیا ہے جو کہ حقائق کے عین مطابق ہے اور ہر اس شکوے کا مدلل جواب اس میں موجود ہے جو اپنی طرف سے کیا ہے۔ سب سے پہلے قارئین کو یہ سمجھا نا ضروری ہے کہ بونی بوزند روڈ ایک ایسا پراجیکٹ ہے جس کو وفاقی حکومت فنڈ دیتا ہے اور اس کی ایگزیکوٹنگ باڈی یا نگران محکممہ سی اینڈ دبلیو ہے جو کہ صوبائی حکومت کے زیر نگرانی آتا ہے۔ مطلب وفاقی حکومت کا کام فنڈ مہیا کرنا اور صوبائی حکومت کا کام ٹھیکے پر دینا پھر ٹھیکہ دار سے معیا ر کے مطابق کام کروانا۔ بونی بوزند روڈ 2011 میں شہزادہ محی الدین مرحوم نے اپنے دست مبارک سے اس کا سنگ بنیا د رکھا اور آج تک لگ بھگ ایک ارب انیس کروڑ روپیہ اس پہ خرچ ہوئے ہیں لیکن ایک کلومیٹر سڑک بھی PC-I کے مطابق نہیں بنا ہے ۔ PC-Iسی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ بناتا ہے اور اسی کے مطابق سڑک کی چوڑائی لمبائی متعین ہوتی ہے اسی ڈیزائین کے مطابق ٹھیکہ دار سے کام کرایا جاتا ہے۔ یہ محکمہ صوبائی وزیر کے زیر نگرانی ہوتا ہے۔ سبھی مانتے ہیں کہ بونی بوزند روڈ15 سال کا گند ہے، تو یہ پوچھنا لازم ہے کہ ان میں سے 13 سال خیبر پختونخوا میں حکومت کن کی تھی؟ سبھی مانتے ہیں واقعی کرپشن تھی تو اس کو بروقت کیوں نہ روکا گیا؟ یہ سوال عوام کا حق ہے ۔ صاحب تحریر نے اپنی پارٹی جس کی صوبے میں حکومت ہے ڈیزاسٹر کے دوران کئے گئے اقدامات کی تعریف تو کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ کیا کارنامہ سرانجام دیا گیا؟”ڈیزاسٹر 2024″ کے دوران نمائندوں نے کیا کردار ادا کیا، یہ ریچ تورکہو جا کر ان لوگوں سے پوچھیں جن کے گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ ان کے دکھوں کا مداوا صرف دعووں سے نہیں ہو سکتا۔
صاحب نے تسلیم کیا کہ قاقلشٹ کا ایک حصہ جو کہ آج بھی کچا پڑا ہے کاغذوں میں مکمل ہے، فائلوں میں سڑک بلیک ٹاپ، سرٹیفکیٹ جاری، ادائیگیاں مکمل۔ یہ سب کس کے دور حکومت میں ہوا؟ سی اینڈ ڈبلیو ڈیپارٹمنٹ کے انجینئرز نے ان پر دستخط کیے، جن کی نگرانی میں یہ سب ہوا، ان کے بارے میں خاموشی کیوں ہے؟جس وقت یہ سب کچھ ہوا تو اس وقت صوبے کے اس محکمے کا وزیر کون تھا۔ آپ نے بجٹ 2024–25 کا ذکر کیا، کہ چترال کے لیے کئی اہم منصوبے رکھے گئے۔ براہ کرم ایک منصوبے کا نام لے لیں جو پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے خود شامل کروایا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ بونی بوزند روڈ کے لیے فنڈ وفاقی حکومت نے مختص کیا۔ پھر آپ نے خود تسلیم کیا کہ “اس سڑک کی تاریخ کرپشن کا آئینہ ہے”۔ اگر ایسا ہے تو اس تمام عرصے میں صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی، تو کرپشن کا ذمہ دار کون ہوا؟ سی اینڈ ڈبلیو محکمہ پی ٹی آئی کے زیر انتظام رہا، وزرا انہی کے تھے۔ پھر کیوں ان سے جواب نہیں مانگا جاتا؟ آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ 2024-25 کے بجٹ میں فنڈ مختص ہونے کے بعدا یڈوانس ادائیگیاں ہوئیں کیوں ہوئیں کس وجہ سے ہوئیں یہ تو وہی بتا سکتے ہیں جن کی صوبے میں حکومت تھی۔ محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے وزیر کو ہی اچھی طرح سے پتہ ہو گا، ان سے آپ کیوں نہیں پوچھتے آپ ہی کی پارٹی کے تو ہیں۔ ٓاگے آپ نے تحریر کیا ہے کہ ایک بات طے ہے کام ہوا ہے ۔ کیا آپ کو یہ نہیں پتہ کہ کام کس طرح ہوا ۔ 2024 سے پہلے والے فنڈ اور کام کی تفصیل میں جائے بغیر جس کام کا آپ نے ذکر کرکے کریڈیٹ اپنے پارٹی کو دینے کی کوشش کی ہے اس کی طرف آتے ہیں ۔میں آپ کو بتا تا ہوں کام ہوا نہیں تھا 9 کروڑ روپے ادا کئے گئے تھے اگست 2024 تک صرف آدھا کلومیٹر تارکول بچھا یا گیا تھا استار و سے ٓاگے دیغیڑی کے مقام پر ۔پھر مشینریاں غائب تھیں۔
جب عوام کو ان دھوکوں کا اندازہ ہوا تو وقاص ایڈوکیٹ، عمیر خلیل اور دیگر باشعور نوجوانوں نے وفاقی حکومت سے ملنے والے فنڈز اور ایڈوانس پیمنٹ کو عوام کے سامنے لایا۔ تورکہو تریچ روڈ فورم نے احتجاج شروع کیا۔ اس احتجاج پر عوام کو چپ کرانے کیلئے عوام سے جھوٹے معاہدے کیے گئے، ان کو مسجدوں میں بٹھا کر وعدے کیے گئے اور پھر ان پر عملدرآمد نہ ہوا۔ بالآخر نومبر 2024 میں عوام سڑکوں پر نکلے، بونی چوک میں دھرنا دیا — ایک سرد رات، جس کی شدت اور قربانی شاید آپ کی تحریر سے اوجھل ہے۔
منتخب نمائندے، جو انصاف کے دعوے دار ہیں، اس وقت کہاں تھے؟ عوام کو “سیاسی ٹولہ” جیسے القابات سے نوازا گیا، ان کی تحقیر کی گئی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ نمائندے، قیادت، سب ایک ہو گئے، تو ذرا بتائیں کہ کس نمائندے نے ایڈوانس پیمنٹ کی وضاحت کی؟ کس نے عوامی جلسوں پر پولیس کو مداخلت سے روکنے کا حکم دیا؟سب کو پتہ تھا ایکسن اور ٹھیکہ دار نے ایڈوانس پیمنٹ کروایا تھا اپنی ملی بھگت سے یاد رکھیں: یہ عوام تھے جنہوں نے بزور بازو مشینری لے جاکر، کام شروع کروایا، ورکوپ تک تارکول بچھایا گیا اور نوجونوں نے خود کام کی نگرانی کیں۔ اس دوران بھی مشینریاں رات کے وقت بھگا کر لے جانے کی کوشش کی گئی ،نوجوانوں نے سرد راتوں میں مشینریوں کی نگرانی کی، بطور گارڈز کام کیا — اور یہ تاریخ میں شاید پہلی بار ہوا ہو کہ عوام خود ترقیاتی کاموں کی نگرانی کر رہے ہوں۔آپ کی پارٹی کے منتخب نمائندے جن کی حمایت میں آپ نے لمبا چوڑا تحریر لکھا ہے اس وقت کدھر تھے؟
آپ کا کہنا ہے کہ “ٹی ٹی آر ایف نے جلسے کیے، ہم نے ان کا ساتھ دیا” — کب؟ کہاں؟ کیسے؟ جب عوام مارچ کر رہے تھے،
آپ کے لوگوں نے انہیں روکنے اور گمراہ کرنے کی کوششیں کیں۔ پورے چترال میں آپ کی پارٹی کے منتخب نمائندے تھے صوبے میں آپ کے پارٹی کی حکومت تھی ، تو پولیس کو قاقلشٹ جاکر مظاہرین کو روکنے کی کوشش کیوں کی گئی ،لاٹھی چارج کا حکم کس نے دیا؟ عمیر خلیل کو دھمکیاں کس کے کہنے پر دی گئیں؟وہاں پر جب ان پر حملہ ہوا تو جان بچا کر وہ بونی کی طرف نکلے۔ہاں ایک بات سچ ہے کہ پی ٹی آئی کے صرف وہی نوجوان اس جلسے میں شامل تھے جو حق کی بات کہتے ہوئے لڑ کھاتے نہیں جو با ضمیر ہیں جن میں سے نمایاں شعیب میر، ہارون ، ظہیر وغیرہ جنہوں نے جلسےمیں بعض نے شرکت کی اور بعض نے سپورٹ کیا۔
آپ کہتے ہیں کہ عمران خان نے سکھایا ہے”اپنا حق مانگو، نہ ملے تو چھین لو” — تو پھر عوام نے جب چھینا، آپ کی پارٹی کیوں برہم ہوئی؟صوبے میں آپ کی حکومت ، چترال میں سارے منتخب نمائندے آپ ہی کی پارٹی کے ، ڈپٹی سپیکر آپ ہی کے پارٹی کا سی اینڈ ڈبلیو کا محکمہ آپ ہی کی حکومت کے زیر نگرانی ، پھر بھی ایک پروجیکٹ میں واضح نظر آنے والے بدعنوانی ، ایڈوانس ادئیگی پر چپ کیوں تھے نمائندے۔ ؟ کیا یہی وہ گڈ گورنس ہے جس کا تذکرہ آپ لوگ سوشیل میڈیا پہ کرتے نہیں تھکتے۔ اگر یہ عمران خان کا نظریہ ہے تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں ہونے دیا گیا؟کام کا معیار، نگرانی، معاہدے کی پاسداری — یہ سب حکومت کی ذمہ داری ہے عوام کی نہیں۔ظاہری بات ہے اس کے بعد دسمبر2024 میں کام نہیں ہوا عوام نے بھی کہا چلو سردیاں ختم ہوتے ہی کام دوبار شروع ہو گا چپ ہوگئے۔ معاہدہ ہو ا کہ اپریل کے مہینے میں کام دوبارہ شروع ہوگا۔
پھر اپریل 2025 بھی گزر گیا، کوئی نمائندہ حرکت میں نہیں آیا۔ دوبارہ عوام سڑکوں پر آئے، بونی چوک میں دھرنا دیا، بونی چترال روڈ بند کیا۔ جب زبردستی آواز بلند کی گئی تو معاہدہ ہوا کہ عید کے فوراً بعد کام ہوگا۔ یہ تو سیاسی شرمندگی کا مقام ہے۔آپ نے آخر میں ایک نوجوان کی بات کی، جس نے احتجاج میں غصہ دکھایا — اس نوجوان کو کرپٹ نہیں کہا جا سکتا، وہ نہ بے ضمیر ہے نہ مافیا کا حمایتی۔ اگر غصے میں الفاظ سخت ہو گئے تو یہ اس بے بسی کی انتہا تھی۔ کم از کم وہ خاموش تماشائی نہیں۔ کیا کیا جاتا ۔ ظلم سہہ سہہ کر تھک گئے تھے ۔جن لوگوں کے دل میں واقعی کرپشن اور ناانصافی کے خلاف جنگ کا جذبہ ہو، وہ میدان میں ہوتے ہیں، نہ کہ صرف فیس بک پوسٹوں اور “گڈ گورننس” کے جھوٹے نعروں میں۔ٓا خر میں ایک بار پھر واضح کرتا چلوں کہ جس ٹھیکہ دار کو بونی بوزند روڈ ٹھیکے پر دیا گیاہے اس کا تعلق کس پارٹی کے ساتھ ہے ۔اور اس کو کیوں اتنا سپورٹ کیا جارہا ہے کس سیاسی جماعت کا ہاتھ اس کے اوپر ہے۔ اس بارے میں بھی پتہ لگایا جائے تو سوشل میڈیا میں آکر عملی میدان میں بے لوث خدمت کرنے والے عمیر خلیل اورایڈوکیٹ وقاص احمد ، عبدالوہاب ، شعیب میر ، ہارون، اور دوسرے نوجوانوں پر شکوہ کرنے سے پہلے بندہ اپنے ٓاپ شرم سے ڈوب مرے گا۔